• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات کے قریب آنے کے باعث ملک میں سیاسی محاذ پر فطری گہما گہمی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جوڑ توڑ کی مصنوعی کوششوں میں بھی تیزی آتی جارہی ہے ۔ اس نوعیت کا ایک بڑا مظاہرہ رواں ہفتے کے دوران کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے سیاسی اتحاد کے اعلان اور اگلے ہی دن اس کی ناکامی کی شکل میں ہوا جبکہ جمعہ کے روز ملک کے سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے 23سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے قیام کی خبر منظر عام پر آئی جن میں سے نہ صرف بیشتر کسی قابل لحاظ عوامی حمایت کی حامل نہیں بلکہ ان میں سے اکثر کے نام سے بھی پاکستان کے عوام ناواقف ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم بہرصورت منتخب اداروں میں نمائندگی کے اعتبار سے سندھ کی دوسری اور ملک کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے اورسندھ کی اردو بولنے والی آبادی کی ایک بڑی تعداد کا ووٹ بینک آج بھی اس کے پاس ہے لہٰذا بدھ کی شام کراچی پریس کلب میں بانی ایم کیو ایم کی لسانی منافرت اور پاکستان مخالف پالیسیوں سے لاتعلقی اختیار کرنے والے ایم کیو ایم کے ان دو دھڑوں کی جانب سے سیاسی اتحاد کے اعلان کا قومی سطح پر بالعموم خیر مقدم کیا گیا تھا۔ لیکن اس پریس کانفرنس ہی میں مصطفی کمال نے یہ کہہ کر کہ نئے سیاسی اتحاد کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ، اس کی شناخت ایم کیو ایم نہیں ہوگی، یہ اتحاد ایم کیو ایم کا نام استعمال کرے گا نہ پرچم نہ سیاسی فلسفہ، ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے مشکل صورت حال پیدا کردی کیونکہ ان کی جماعت کے کارکن ایسے کسی فیصلے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ اس بناء پر انہیں فوری طور مصطفی کمال کے اس موقف سے اختلاف کا اظہار کرنا پڑا جبکہ جمعرات کو ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں انہوں نے سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’’کل کی ملاقات کا فیصلہ مشاورت سے ہوا تھا، سب سے مشاورت ہوئی تھی، ایسا نہیںکہ میں نے فیصلہ مسلط کردیا ہو،سب کو اعتماد میں لیا تھا، لیکن ایک طرف آپ کک ماریں اور دوسری طرف کارکنان مخالف ہوجائیں،ایسا نہیں ہونا چاہیے،اب آپ جانیں، آپ کی پی ایس پی جانے، آپ جانیں اور آپ کی رابطہ کمیٹی جانے۔‘‘ان کے اس اعلان کے فوراً بعد پارٹی کے دوسرے رہنماؤں نے انہیں منانے کی کوششیں شروع کردیں،اور ایک گھنٹے بعد ہی انہوں نے پھر پریس کانفرنس کی جس میں اپنا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کردیا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’’ کل میں نے ایک انتخابی اتحاد کی بات کی تھی لیکن کراچی ہو یا پاکستان، انجینئرڈ سیاست نہیں چل سکتی۔‘‘ انہوں نے ایم کیو ایم کے نام سے دستبردار نہ ہونے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ’’ مہاجروں کا ذکر کرنا پاکستان کی بقا کے لیے لازمی ہے،زندہ قومیں اپنے اجداد کی قربانیاں یاد رکھتی ہیں اور اس طرح ہم کراچی میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ، ہم قومی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں مہاجر سیاست کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔‘‘ بلاشبہ سیاسی عمل اسی صورت میں مثبت نتائج دیتا ہے جب اسے فطری طور پر پنپنے کا موقع ملے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں طاقتور حلقے سیاسی عمل کو مصنوعی طریقوں سے اپنی مرضی کے تابع رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ایسی کوششوں کے باعث سیاست ایک سنجیدہ عمل کے بجائے مضحکہ خیز تماشا بن کررہ جاتی ہے۔ ری پبلکن پارٹی سے لے کر آئی جے آئی اور ایم کیو ایم تک سب کی تشکیل میں اسی انجینئرنگ کا عمل دخل ایک کھلا راز ہے۔ جنرل مشرف کی قیادت میں بننے والا نیا سیاسی اتحاد بھی اسی کی تخلیق نظر آتا ہے۔ جبکہ ایسے تجربات سے نہ ماضی میں قومی مفاد کی کوئی خدمت ہوئی ہے نہ آئندہ ایسا ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے نتیجے میں سیاست میں حب الوطنی اور عوام دوستی کے بجائے خود غرضی، منافقت اور مفاد پرستی کو فروغ حاصل ہوتا ہے لہٰذا ایسی ہر کوشش سے اجتناب اور حقیقی سیاسی عمل کو پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہی قومی مفاد کا اصل تقاضا ہے۔

تازہ ترین