• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکنوکریٹ سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں، آپ انہیں دور سے ہی دیکھ کر پہچان سکتے ہیں، یہ ہر وقت سوٹ ٹائی میں رہنا پسند کرتے ہیں، سگریٹ نہیں پیتے کیونکہ یہ اب فیشن نہیں رہا، کبھی کبھار ڈرنک کر لیتے ہیں، انگریزی میں بات کرتے ہیں مگر جب کبھی اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہو یا اپنے کلچر پر فخر کا اظہار کرنا مقصود ہو اُس وقت پنجابی میں بھی بات کر لیتے ہیں، اردو نہیں بولتے۔ لوگوں سے اُن کے عہدے اور مرتبے کے مطابق ملتے ہیں، جتنا چھوٹا بندہ اتنا مختصر مصافحہ، اول تو عام بندے کو ملتے ہی نہیں اور اگر مل لیں تو ہاتھ ملانے کے لئے بمشکل دو انگلیاں آگے بڑھا دیتے ہیں۔ اپنے متکبر پن کو egoistic ہونا کہتے ہیں اور بظاہر عاجزی دکھانے کی بھونڈی سی کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن ایسے بندے کے آگے لیٹ جاتے ہیں جو انہیں کسی غیرنمائندہ حکومت میں نوکری کا دلانے کا وعدہ کرے۔ ان کے بچے عموماً امریکہ اور برطانیہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں پڑھتے ہیں، کبھی کبھار یہ لوگ پاکستان آتے ہیں تاکہ یہاں کے سسٹم میں کیڑے نکال کر ہم پاکستانیوں کو بتا سکیں کہ تم جاہلوں کے لئے جمہوریت کا ماڈل ڈیزائن ہی نہیں ہوا۔ پاکستانی ادب اور شاعری سے ان کا دور تک کا بھی تعلق نہیں، غلام عباس یا حفیظ جالندھری نہیں، اِن کو منٹو اور فیض کے نام رٹائے گئے ہیں، پڑھا کبھی اِنہیں بھی نہیں۔ کبھی کبھار کسی محفل میں یہ بات لڑھکا دیتے ہیں کہ بھئی اس موقع پر فیض صاحب نے کیا خوب کہا ہے اور پھر کوئی مصاحب بات اچک کر شعر لگا دیتا ہے اور داد صاحب سمیٹ لیتے ہیں۔ چونکہ مقامی فنون لطیفہ کی سرپرستی کا شوق بھی ہے اس لئے موسیقی میں انہیں استاد مہدی حسن خان صاحب اور میڈم نورجہاں کی فیض صاحب والی نظم ــ’’مجھ سے پہلے سی محبت میرے محبوب نہ مانگ ‘‘ پسند ہے، البتہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ٹائپ ’’خرافات‘‘ سے پرہیز فرماتے ہیں۔
لاہور کراچی کے پوش علاقوں میں ان کی کوٹھیاں ہیں، عالی شان کلبوں کی رکنیت ان کے پاس ہے، گالف ان کا محبوب کھیل ہے، اتوار کو گالف اور شام کو دوستوں کے ساتھ برج کھیلتے ہیں، ایک پیر امریکہ تو دوسرا یورپ میں ہوتا ہے، ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی نوکریاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اور جب وہاں سے بھی فراغت مل جاتی ہو تو یکایک ان کے دل میں پاکستان کے غریب عوام کا درد جاگ اٹھتا ہے، میامی کے ساحل پر دھوپ سینکتے ہوئے انہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ کیسے پاکستان کے کرپٹ حکمران اس ملک کو گدھوں کی طرح نوچ کر کھائے جا رہے ہیں، یورپ کی برف باری کے دوران گرما گرم کافی پیتے ہوئے ایک دم سے اِن کی آنکھیں یہ سوچ کر پر نم ہو جاتی ہیں کہ پاکستان کے اسپتالوں میں مائیں راہداری میں بچے جننے پر مجبور ہیں، برطانیہ کے کسی دور افتادہ قصبے میں گاڑی قانون کے مطابق پارک کرتے ہوئے یہ آہیں بھرتے ہیں کہ کب پاکستان میں قانون کی یکساں پاسداری کا یہ نظام نافذ ہوگا۔ ان کی یہی انقلابی سوچ انہیں پاکستانی ٹی وی چینلز پر آنے پر مجبور کرتی ہے اور اسی لئے آج کل میڈیا پر انہی کا راج ہے، روزانہ رات کو غریب عوام کا نوحہ پڑھتے ہیں اور گریہ و زاری کے لہجے میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدارا اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکو، مراد یہ کہ ہمیں نوکری پہ لگاؤ۔ یہ اور بات ہے کہ غریب عوام کی بات کرنے کے بعد یہ فوراً گھر جا کر امپورٹڈ ماؤتھ واش سے غرارے کرتے ہیں مبادا غریب کا نام لینے سے ہی جراثیم منہ میں سرایت نہ کر گئے ہوں۔ انہیں اپنی قابلیت کا بھی بہت زعم ہے، ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اِن کی قدر کی جاتی ہے، انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا جاتا ہے، مالیاتی ادارے ان کی دیدہ زیب رپورٹوں کو چوم چاٹ کر رکھتے ہیں، اقوام متحدہ کی کانفرنسوں میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے، گورننس کے ہر پیچیدہ مسئلے کا حل ان کے پاس ہے، یورپ اور امریکہ کی اعلی جامعات کی سندیں ان کے پاس ہیں، ان سے بہتر انداز میں پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر کوئی نہیں لڑ سکتا کیونکہ انہیں بہترین انگریزی آتی ہے اور یہ پرچیوں کی مدد کے بغیر ہی امریکی صدر کو اپنے زورِبیاں سے چِت کر سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بھی سمجھ آتی ہے کہ اِس قدر قابلیت اور اہلیت کے باوجود آخر پاکستانی عوام انہیں منتخب کرکے اقتدار کیوں نہیں سونپتے کیونکہ یہ جاہل، اجڈ اور ڈنگر عوام اپنے جیسے جاہل اور کرپٹ سیاست دانوں کے شکنجے میں ہیں۔ اِن جہلا کا بھی ہمارے ٹیکنوکریٹ بھائیوں کے پاس علاج ہے اور وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو سسٹم کو تیزاب سے دھویا جائے چاہے اس دھلائی میں آئین کی کتاب ہی نہ دھونی پڑے، اس کے بعد عنان اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے، ان سے کوئی پوچھ پریت نہ کی جائے، بس ان کی اہلیت، صداقت ،دیانت اور خلوص نیت پر بھروسہ کیا جائے، پھر دیکھئے پروفیشنل ازم اور حب الوطنی کے یہ پتلے کیسے ملک کی کایا کلپ کرتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ ان ٹیکنوکریٹس کو کبھی ملک کی خدمت کا موقع نہ ملا ہو، آخری مرتبہ یہ موقع انہیں 1999میں ملا جب ہمارے ہر دلعزیز خیر اندیش آمر نے مندرجہ بالا فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ایک ٹیکنوکریٹ کابینہ تشکیل دی، اس میں ورلڈبینک سے وزیر خزانہ کو امپورٹ کیا گیا (وہی جن کا حال ہی میں کسی پیراڈائز پیپر میں نام آیا ہے) جبکہ باقی مال لوکل ہی تھا، قابلیت کے یہ پیکر لگ بھگ تین برس تک بلاشرکت غیرے اس ملک کے مالک رہے، خود تو یہ بہت پڑھے لکھے تھے مگر انہوں نے اپنے سے خاصے کم پڑھے لکھے آمر کے ہاتھوں پر ’’بیعت‘‘ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی، یہ اور بات ہے کہ پاکستانی عوام کو کم پڑھے لکھے ہونے کا طعنہ بھی یہی لوگ دیتے ہیں۔ سیاست کی آلائشوں سے پاک اس ٹیکنوکریٹ کابینہ نے ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں، انصاف کے نئے معیار قائم کئے، لوگ وزیرستان میں سونا اچھالتے ہوئے گزر جاتے اور کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا، قانون کی عملداری ایسی تھی کہ سوائے شوگر مل مالکان یا ایسے ہی کچھ اور طبقے جو ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے، ہر کسی کا چالان ہوتا تھا حتیٰ کہ کسی جاہل سائیکل سوار کو بھی نہ بخشا جاتا تھا۔ اُس وقت کے احتسابی ادارے نے چند سیاست دانوں کے خلاف کیس بھی بنائے مگر انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خیر اندیش آمر نے انہیں کارروائی کے قابل نہ سمجھا اور یوں وہ لوگ بھی اسی طرح دودھ سے دھل گئے جیسے ٹیکنوکریٹ کابینہ دُھلی ہوئی تھی۔
میں اِن ٹیکنو کریٹس کا دکھ سمجھتا ہوں، دس پندرہ برس سے یہ لوگ نوکری کے بغیر ہیں اسی لئے ٹی وی پر سی وی لئے پھر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اِس ملک کے سب سے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، بہترین کلیدی عہدوں پر یہ فائز رہے، غیر ممالک میں بھی نوکریاں کیں مگر نہ جانے کیا بات ہے کہ ان کا رونا ختم ہی نہیں ہوتا، انہیں اس ملک میں اور اِس نظام میں بس کیڑے نظر آتے ہیں، ان کا دل کرتا ہے کہ ملک کے ٹوٹے کرکے اِن کے حوالے کر دیاجائے تاکہ یہ اُس ٹوٹے کو کسی منجھے ہوئے ٹیکنوکریٹ کی طرح’’پروفیشنل‘‘ انداز میں کھا جائیں۔ کرپٹ سیاست دانوں کو تو کھانا بھی نہیں آتا۔

تازہ ترین