• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے نواز شریف نا اہلی کیس میں ایک سوال بزبان ِ شاعر بھی کیاگیا کہ
تُوادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
یعنی ’’سپریم کورٹ نے ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘کے سراپا سوال چہرے کے سامنے ’’قافلہ کیوں لٹا ‘‘ کا آئینہ رکھ دیا ۔یقیناً ’’رہبری کا سوال‘‘اس مقدمہ میں کسی تازیانے سے کم نہیں ۔اگر چہ مریم نواز نے اسے ’’منصفی کا سوال ‘‘قرار دیا ۔اس غزل کے کچھ اور شعر بھی مقدمہ میں درج ہوجاتے تو شاید مریم نواز کے ذہن میں ’’ منصفی کا سوال ‘‘ نہ ابھرتا ۔ شعر دیکھئے
مرے دل کے ٹکڑے کئی ہوئے
مری آنکھیں درد سے بھر گئیں
کہے کون میری تباہی بھی تری دل لگی کا کمال ہے
بے شک ہمارے ملک کی حالتِ تباہ کے اسباب میں ہمارے سیاست دانوں کی دل لگی کا کردار بہت اہم ہے ۔وہ بھی کیا کریں کہ ان کی محبت ہمیشہ دوشیزہ ء زر کے ساتھ رہی ہے ۔ اس پر ستم یہ ہے کہ اُس دوشیزہ ء زر سے زیادہ پیار کیا جو غیر منکوحہ تھی ۔قافلہ لٹنے کے اسباب میں اِس ’’غیر منکوحہ دوشیزہ ء زر کا بہت عمل دخل ہے ۔ نہجہ البلاغہ کا ایک جملہ یاد آ گیا ہے کہ ’’جو زر اور دو لت کے پیچھے بھاگا ذلیل اور رسوا ہوا‘‘وزیر مملکت مریم اورنگ زیب نے بھی اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی اور کہاکہ’’ قافلہ تب لٹا جب نظام عدل آمریت کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن گیا، قافلہ اس وقت لٹا جب منتخب وزیراعظم کو اقامے کی صورت میں نکالا گیا۔‘‘یعنی وزیر موصوفہ نے ’’قافلہ لٹنے کا مفہوم ہی بدل دینے کی کوشش کی یا پھر انہیں ملک ِ پاکستان کا لٹا پٹا قافلہ کبھی نظر ہی نہیں آیا ۔ملکہ فرانس کی طرح شاید وہ بھی یہی سوچتی ہیں کہ جن گھروں میں روٹی موجود نہیں وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے ۔اس غزل کا ایک اور شعر دیکھئے
یہاں چور صاحبِ عز و جاہ
یہاں جھوٹ کی ہیں حکومتیں
کرے کون سچی کہانیاں،کسی آدمی کی مجال ہے
چور وں کا صاحب ِ عزو جاہ ہونا تو بالکل اسی طرح ہے جیسے گاڈ فادر ہوا کرتے ہیں ۔سوچتا ہوں کہ تفصیلی فیصلے میں کہیں یہ شعر شامل ہوگیا تو کیا ہوتا ۔کچھ اور حقیقتیں عریاں ہوگئی ہوتیں ۔غزل کا اگلا شعر دیکھئے۔
یہاں راکھ راکھ ہیں بستیاں
یہاں خاک اڑتی ہے ہر طرف
مری سرزمیں کوئی لاش ہے کسی بے کفن کی مثال ہے
میری ملک ِ خداد اد کی یہ بے گور و کفن لاش کب دفنائی جائے گی۔ لٹے ہوئے قافلے والوں کی برہنگی پر کب کوئی لباس اترے گا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک شعر یاد آگیا ہے ۔وہ بھی سن لیجئے ۔ ’’اپنی عریانی چھپانے کےلئے ۔۔ تُو نے سارے شہر کو ننگا گیا ۔‘‘اگرچہ نون لیگ نے اس فیصلے پر اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ’’عدلیہ جیسے مقدس ادارے کے لیے نواز شریف کی جدوجہد تاریخ کاحصہ ہے، رہبری کرنے والوں نے ہی پاکستان اور ملک کو ایٹمی قوت بنایا تاہم سوال رہبری کا نہیں منصفی کاہے جب کہ قافلے کیوں لٹے بچہ بچہ جانتاہے، قافلے لٹنے کی وجہ رہزنوں کے ہاتھوں پر بیعت ہے،راہزنوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے نظریہ ضرورت ایجاد کیے گئے تاہم رہبر تو پیشیاں بھگت رہے ہیں بتایا جائے راہزن کہاں ہے۔‘‘
اس اعلامیہ سے ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ نون لیگ نے تسلیم کر لیا ہےکہ واقعی اس ملک کا قافلہ لٹ چکا ہے ۔راہزنوں نے اس ملک کے بند بند کو مضمحل کر دیا ہے ۔بقول فیض یہ دیس ’’درد کی انجمن ‘‘بن چکا ہے ۔لٹیروں نے اسے جی بھر کر لوٹا ہے کہ پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر پاکستان کی اتنی دولت موجود ہے کہ اس کی واپسی سے نہ صرف اس ملک کے تمام قرضے ادا ہوسکتے ہیں بلکہ یہ ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوسکتا ہے ۔
غزل کا مطلع بھی سن لیجئے وہ بھی موجودہ حالات کی بڑی بھرپور عکاسی کررہا ہے کہ
جو یہی زوالِ فراق ہے جو یہی کمال ِوصال ہے
تو یہ میرا آخری ماہ ہے تو یہ میرا آخری سال ہے
لمحہ ء موجود کی صورت حال بھی اسی شعر کے مصداق کسی آخری ماہ اور آخری سال کی کہانی گنگنا رہی ہے ۔یہ کمال وصال اور یہ زوالِ فراق کی آواز آخر ی سانسوں کے شورمیں ڈھلتی جارہی ہے ۔خاندان ِ اقتدار کا ستارہ مکمل طور پر زوال کی نحس ساعتوں کےحصار میں آ چکا ہے ۔سعد گھڑیوں کا کوئی نیا مفاہمتی آرڈر کہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔ہر طرف یہی خبر گرم ہے کہ کل جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ حدیبیہ پیپرملز ریفرنس کی سماعت کرے گا ۔لوگ کہتے ہیں کہ اس عطار کے لڑکے سے دوا کی امید نہیں کی جاسکتی جس کے سبب میر صاحب بیمار ہوئے تھے۔نواز شریف کو بھی جسٹس کھوسہ نے ہی اپنے پہلے فیصلے میں گاڈ فادر کےلقب سے نوازا تھا۔اب دیکھتے ہیں شہباز شریف کس نام سے پکارے جاتے ہیں۔

تازہ ترین