• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا مصرع ہے ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘غور کریں تو ہماری اجتماعی صورتحال ہو یا انفرادی سبھی کا یہ مصرع خوب احاطہ کرتا ہے۔ ہم ملت مسلم کو دیکھیں، عرب دنیا کو دیکھیں ، پاکستان کے حکمرانوں کو دیکھیں یا پھر پاکستانی قوم کی صورتحال کو دیکھیں سبھی اسی طرح کی سوچ میں مبتلا لگتے ہیں۔
’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘
اسرائیل نے غزہ کی ایک لحاظ سے اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔ چھوٹی سی غزہ پٹی جوبمشکل کوئی 70کلومیٹر اور 18کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جس میں لگ بھگ اٹھارہ لاکھ لوگ رہتے ہیں اور جس انداز میں اسرائیل نے اس کا محاصرہ کر رکھاہے اس میں سوائے کچھ بے ضرر راکٹوں کے کچھ بھی اندر نہیں لے جاسکتے۔ اس کا تاثر اس طرح دنیا میں قائم کیا جارہا ہے گویا اس کے پاس دنیاجہان کے اسلحے کے انبار ہیں اور وہ اسرائیل پر اس طرح حملے کر رہے ہیں جس طرح امریکہ نے ہیروشیما پر بم پھینک دیئے تھے۔ بے شمار مردو خواتین اور بچے قتل کئے جاچکے ہیں اوراسرائیلی پروپیگنڈے کا اثر کہیں یا ان کی بحیثیت قوم مضبوطی کی کہ امریکی صدر کو وہ ہی مظلوم نظر آتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ حماس کے راکٹ حملوں کو کسی طور برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے بھی جب بھی کبھی اسرئیل نے اس بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کا قتل عام کیاہے خواہ وہ صابرہ وشتیلہ کےکیمپ ہوں یا مختلف اوقات میں فلسطینیوں پر حملے امریکہ یا یورپی اقوام نے کبھی اس کاموثر انداز میں ذکر نہیں کیا۔ خیر اس کا کیا افسوس کرنا اس لئے کہ اگراپنوںکو ہی غیرت نہیں آتی تو پھر غیر کس طرح غیرت کا ثبوت دیں گے۔ یہیں سے میں اپنے اوپر درج کئےمصرعے کی طرف آتاہوں۔ کیا عرب دنیا یامسلم دنیا جس طرح سے اسرائیلی حملوں اورفلسطینیوں کے قتل عام کے حوالے سے کر رہی ہے وہ یہی بات نہیں ہے کہ چلو کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا یعنی ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ اس معاملے میں زیادہ تر مسلم دنیاخاصی بے حس ثابت ہو رہی ہے اور دراصل یہ اسی بےحسی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل یا دوسرے اسرائیل نواز ممالک کو یہ ہمت ہوئی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی اس طرح ہلاکتوں کا سامان کریں۔ فلسطینی اگر اس طریقے سے مارے نہ جارہے ہوں تو بھی ان کی زندگی اسرائیلی تسلط، ان کے ہر انداز کے جبر کے تحت ہی بسر ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو چند برس قبل بنائی گئی ایوارڈیافتہ فلم ’’عمر‘‘ کو دیکھ کر ہوتاہے۔جس حال میں عمر آخری انٹیلی جنس افسر کوقتل کرنے پر مجبورہوتا ہے وہ اسی سماجی و اقتصادی جبر کانتیجہ ہے جو ہر فلسطینی کی زندگی میںطوفان بپا کئے ہوئے ہے۔ ’’عمر‘‘نے عالمی سطح پر بے شمارایوارڈ جیتے لیکن لگتا یہی ہے کہ وہ مسلمانوںاور خود عالمی سطح پر لوگوں کے ضمیرکو جگانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اگر پاکستان کے حوالےسے ہی دیکھیں تو صورتحال کچھ عجیب ہی ہے۔ اس وقت غیبی فرشتے شاید پاکستان میں کوئی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی بے توقیری اور جماعتوں کی توڑ پھوڑ اسی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن اس سے پہلے کہ کوئی پھر سے آ کر کہے کہ ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ ہمیں آج سے پہلے انقلاب کے نام پر کئے گئے دھوکوں کویاد کرلیناچاہئے۔
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انقلاب کے دعوے دار پاکستان بننے کے بعد ہی پیدا ہوناشروع ہوگئے تھے۔ یہ اوربات کہ ان کے انقلاب اللہ کے شکر سے مکمل نہ ہونے پائے ورگرنہ نمعلوم کیا ہو جاتا۔ 70ء کے زمانے کی پیداوار ہونے کےسبب میں بھی انقلاب کے انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ 70ء کے زمانے کی پیداوار اس لئے کہ کہ اصل ہوش اسی زمانے میں آنا شروع ہوا تھا۔ میرا کالج اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اس سے پہلے ایوب خان صاحب اپنے زرعی انقلاب کی بات بہت کرتے تھے لیکن 65ء کی جنگ ہارنے کے بعد اور تاشقند کے معاہدے میں پاکستان کی ذلت کا سبب بننے کی وجہ سے بھٹو صاحب نے ان کے خلاف انقلاب کا نعرہ لگا دیا۔ ہم مغربی پاکستان کے رہنے والے اس وقت سرکاری میڈیا کے بہت بااثر ہونے کی وجہ سے یہ نہیںجانتے تھے کہ ٹھیک اسی وقت بنگال میں بھی انقلاب کا نعرہ لگ چکا ہے جو کافی حد تک جینوئن بھی ہے لیکن انقلاب کے اس غبارے سے ہوا اس وقت نکل گئی (مغربی پاکستان میں) جب اقتدار پرقبضہ یحییٰ خان نے کرلیا۔ اس نے بھی بہت سے انقلابی اقدامات کا ذکر کیا لیکن وہ انقلاب زیادہ تر نشہ میںرہتا تھا سو ڈگمگاتا ہی رہا۔ پاکستان ٹوٹ گیا تو ایک بار پھر بھٹو صاحب کے انقلاب کی آواز بلند ہوئی۔ اس میں کچھ مثبت پہلو بھی تھے اس واسطے کہ پہلی بار عام آدمی کو ہمت ہوئی کہ وہ امرا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھ سکے۔ لیکن بھٹو صاحب کا انقلاب خود انہی کی حکومت کی بداعتدالی اور پھر نو ستاروں کے جھرمٹ کی غیبی طاقتوں کی امداد کے ہاتھوںبرباد ہو گیا۔ زرعی انقلاب سے ہم سوشلزم کے راستے گزرتے ہوئے اب ضیا الحق کے اسلامی انقلاب کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن ضیاالحق نے اسلام کے نام پر قوم سے جو دھوکہ کیااس نے انقلاب تو نہ دیا البتہ اس قوم کو جنگجوئوںاورہیروئن فروشوں اور کلاشنکوفوں کی بڑی بڑی کھیپیں ضرور دے دیں۔ یہ انقلاب ایک حادثے نے ختم کیاتو بینظیر اور نوازشریف کی ’’کدی تسی کدی اسی‘‘والی گیم شروع ہوگئی جس کو ایک اورانقلاب یعنی مشرف مارکہ انقلاب چمٹ گیا۔ ایک لمبی مدت تک قوم اور مریکہ سے ڈبل گیم کھیلنےکے بعد اب بڑی مشکل سے قوم انقلاب کی بجائے جمہوریت کی پٹڑی پر چڑھی ہے۔اسے چڑھا رہنا چاہئے۔ عوام کو اپنے خواب خرگوش سے جاگنا چاہئے اور اس انتظار میں نہیں رہنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔

تازہ ترین