پاکستان پر اللہ کا بڑا کرم یہ ہوا ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے اس کے ریاستی ڈھانچے میں بہتری کا عمل شروع ہوا ہے۔ موجودہ ملکی سیاسی و اقتصادی بحران میں اگرچہ یہ امید کرنا اور دینا قوم کو جھوٹی تسلی دینے کے مترادف معلوم دیتا ہے کہ ’’اس بحران سے مطلوب تبدیلی کی راہیں نکلتی جارہی ہیں‘‘۔ ایسے کہ ہر قومی ادارہ ’’میڈیا مانیٹرنگ‘‘ کے سرکل میں آگیا ہے۔ باوجود اس کے کہ میڈیا ابھی خود بھی اپنے کردار کی ادائیگی میں ارتقائی کیفیت میں ہے لیکن یہ تیز تر اور ویسا ہے جو قوم کو شدت سے مطلوب ہے گویا راہ راست پر ہے۔ پاکستانی میڈیا ملک میں بار بار مارشل لا کے نفاذ اور ان کے زیر سرپرستی بنی قیادتوں کی بیمار سیاسی حکمرانی میں جمہوری عمل کی بقا و بحالی کے لئے قابل قدر کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن اپنی شاندار خدمات اور قیام پاکستان سے تادم شہدائے پاکستان کی جانوں کے صدقہ مسلسل کا نتیجہ ہے کہ ہمارے قومی میڈیا کا حجم جیسے ہی بڑھا اور نجی شعبے میں الیکٹرونک میڈیا کی بہار، وردی والی سرکار کی موجودگی کے باوجود آزادی صحافت کے اچھے بھلے درجے کے ساتھ وارد ہوئی، ہمارے میڈیا کا کردار ظہور پذیر قومی ضرورتوں کے مطابق نتیجہ خیز ہوتا گیا۔ سب سے بڑھ کر اس کا اب اختیار کیا گیا مانیٹرنگ کا کردار جس کی ادائیگی سے یہ حقیقی معنوں میں سوسائٹی کا ’’واچ ڈوگ‘‘ بن گیا، یہ الگ ہے کہ خود میڈیا کا قابل قبول واچ ڈوگ تشکیل پانا ابھی ایک بڑی قومی ضرورت ہے جو میڈیا اسکالرز کے لئے ایک چیلنج ہے کہ وہ میڈیا کو مسلسل اسٹریم لائن رکھنے کے لئے پاکستان میں ’’میڈیا واچ‘‘ کی ادارہ سازی کو متعارف کرائیں۔
بلاشبہ میڈیا کا سوسائٹی خصوصاً گورننس کی مانیٹرنگ کا یہ کردار اپنے پہلے سے موجود جمہوری کردار میں ایک سنگ میل ہے کہ جب ملک کے حکمران اسٹیٹس کو کی طاقت کے زور پر بار بار برسراقتدار آنے کا فن تو خوب جان گئے ہوں لیکن ان کا انداز حکمرانی اور بطور حکمران نیت بگڑتی ہی جائے، ایسے میں میڈیا نےان کے سر پر سوار رہ کر ان کے کرتوت بشکل کرپشن، بدانتظامی غیر جمہوری اقدامات سب سے بڑھ کر خلاف آئین و قانون اقدامات اور اپروچ جیسے بلدیاتی نظام پر حکومتی اور بار بار کے عدالتی احکامات سے بحالی کے بعد بھی اس کے اداروں کے اختیارات غصب کئے رکھنا، پارلیمنٹ کی نااہلیت کو ٹھوس حقائق کے ساتھ بے نقاب کرنا، مستقبل قریب میں (بلکہ ساتھ ساتھ) گورننس کے اصلاحی عمل کی ضمانت بن جائے گا، جسے میڈیا نےطریقے سلیقے اور پیشہ وارانہ اقدار نبھاتے ہوئے تیز تر کرناہے۔
میڈیا کا یہ کردار تب ہی مسلمہ ہو گیا تھا جب 2007-8 کی وکلا تحریک برائے آزاد عدلیہ پر حکومتی اسٹیٹس کو اپنی طاقت سے اسے منقسم کرنے کےلئے حملہ آور ہوا تھا جس پر اس کی جان بھی کم ہونے لگی تھی۔ وکلا تنظیموں میں پیسہ تقسیم کرکےتحریک کو ختم کرنے کاحربہ شروع ہی ہواتھا کہ میڈیا نے اسے اتنا اور یوں بے نقاب کیا کہ ایسا نہ ہوسکا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آزاد عدلیہ کے قیام کی تحریک کا آغاز اگر جج کی خلاف روایت آمر کو جرأتمندانہ "NO" سے شروع ہوا تو وکلا کےاحتجاج اور جج کی معاونت اور ہر دو کو میڈیا کی معاونت نے اس بے مثال تحریک کو عوامی اور قومی بنا کر اتنا نتیجہ خیز بنا دیا کہ اس کے نتیجے میں آج کی قابل قدر بالائی عدلیہ وجود میں آئی جو قوم کے لئے نعمت خداوندی ہے۔
بلاشبہ آج پاکستانی عدلیہ دنیا بھر کی تمام ترقی پذیر جمہوریتوں کے لئے مثال بن گئی ہے۔ اس لئے کہ جسٹس افتخار چوہدری کا "NO" تیز تر فالو اپ میں ڈھل گیا۔ پہلے وکلا کی تحریک میں پھر میڈیا کے جمہوری کردار میں پھر تحریک کےعوامی اور قومی ہوتے ہوئے آزاد عدلیہ ہی نہیں جمہوریت بمطابق آئین اور خود آئین کی اصل حالت میں بحالی ممکن ہوتی گئی۔ آج آزاد عدلیہ اپنے مطلوبہ ارتقا کے ساتھ ساتھ پاکستان میںآئین و قانون کی حقیقی حکمرانی میں حائل اسٹیٹس کو روایتی رکاٹوں، مشکوک انتخابات، بدتر حکمرانی، طاقتور شاہی خاندان میں ڈھلتی بیمار جمہوریت میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔
حکمرانوں کے احتساب کا ناممکن ہدف سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی عدالتی حکم کے نتیجے میں معزولی سے لے کر سابق وزیراعظم نواز شریف کے عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہونے اور جمہوری نظام کے بدستور برقرار رہنے تک، ہر دو کے درمیان سپریم کورٹ کے آئین و قانون کی حکمرانی کی بالادستی کو ممکن بنانے والے کتنے فیصلوں اور احکامات نے اسٹیٹس کو سے راہ ِ نجات اور ’’آئین نو‘‘ کی اختیاریت کی راہ ہموار کر دی ہے۔
پانامالیکس اس پس منظر میں ایک ایسا سنگ میل بنا ہے کہ پاکستان میں جس تیزی سے لاغر جمہوریت کو طاقتور شاہی خاندانوں میں ڈھالنے کا عمل شروع ہوا تھا، اتنا ہی تیزی سے حکمران طبقے کے احتساب کاعمل ممکن ہو گیا اور پاناماکے حوالے سے اس کا آغاز برسراقتدار سیاسی خاندان کےاحتساب سے شروع ہوا۔
جمہوری نظام تو برقرار ہے۔ ن لیگ جس نے سیاسی جماعت سے ایک شاہی خاندان کے دربارو و دیوان کا روپ دھار لیا تھا، آج اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے چیلنج سے دوچارہے۔ پاناما کیس کا پہلا نتیجہ تو ایساآیا کہ ن لیگ اورشریف خاندان کا یہ گمان قائم رہا کہ ابھی عدلیہ یہاںتک عدلیہ نہیں بن پائی کہ ان کا بھی مطلوب احتساب کرسکے۔ سو، پہلا فیصلہ آنے پر جب جناب میاں نواز شریف کی حکومت قائم رہی تو ن لیگی باغ باغ ہو گئے مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور عدالتی فیصلے کی تحسین بھی۔ لیکن کیس کی سماعت کے دوسرے مرحلے میں جب دوران سماعت ہی خود سب سے زیادہ ملزم خاندان پھر اس کی جماعت اور درباریوں حواریوں کو عدالتی کارروائی میں اپنے تضادات اور قوانین کے سامنے بے بس اور جکڑ بندی کا احساس بڑھنے لگا توانہوں نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہال ہاشمی کی عدلیہ کو کھلی دھمکیوں سے عدالت کے سامنے ہر پیشی پر وزرا کے عدالت لگانے، ریاستی عدلیہ کے مقابل عوامی عدالت کو ماننے کے اعلانات فیصلہ اور اس پر احتجاجی ریلی اور اب مکمل ن لیگ تو نہیں شاہی خاندان کی عدلیہ کے خلاف کھلی دشنام طرازی اور مزاحمت تک محیط ہوگئی ہے۔ میڈیا نواز لیگ اور ملزم خاندان کا جو بھی موقف ہے اسے عوام کے سامنے لانے میں مکمل فراخدل ہے اور عدلیہ نے اپنے دفاع کے لئے جتنا موقع فراہم کیا، اور جیسے ایوان اور قوم کی آگاہی کے لئے منتخب فورم کی تقریر کے بھی سیاسی ہونے کا اقرار بھی ہوا، ایسے میں دفاع کے لئے عوامی خزانے سے خریدی وزرا و مشیروں کی چمکتی دمکتی قیمتی گاڑیوں کے پروٹوکول کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ یا بحران در بحران کی کیفیت کو بڑھا کر تشویش بڑھانے سے بچت ہو جائے گی؟ نہیں ایسا نہیں ہوگا، جو ہوا، جو ہورہا ہے، سب آئین و قانون کی روشنی اور عدالتی عمل میں ہورہا ہے، سو، اسٹیٹس کو کتنا بھی طاقتور ہو، سے سابقہ فرینڈلی عدالتی نظام اب بحال نہ ہوسکے گا اور نہ سازش فری، پاناما برینڈ احتسابی عمل لپیٹا جاسکتا ہے، سب سے زیادہ اس کا احساس اپنی سیاست کو بچانے کی فکر میں مبتلا ن لیگی اراکین اسمبلی بشمول خود شریف خاندان سے اہل خانہ کو بھی ہے، تبھی تو یہ اعتراف سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ کرپشن نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے لیکن جمہوریت برقرار ہے۔