• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

23جماعتی اتحاد
پرویز مشرف( سابق آرمی چیف) کی زیر قیادت 23جماعتی اتحاد قائم ہو چکا ہے، نام اس کا پاکستان عوامی اتحاد رکھ دیا گیا ہے، ڈیڑھ انچ کی تمام الگ مساجد اب ایک ’’جامع مسجد‘‘ کا روپ دھار چکی ہیں جس میں نماز سیاست خود پرویز مشرف پڑھائیں گے، یہ 23مقتدی کب سے وضو کر کے بیٹھے امام کے انتظار میں تھے پاکستان میں سیاست فوبیا، وائرل ہو چکا ہے، آسمان کا جتنا ٹکڑا پاکستان کے حصے میں آیا وہ لمحہ بہ لمحہ رنگ بدل رہا ہے گویا آسمان وطن پر دو طرح کی اسموگ کا راج ہے، جس مریض کے اتنے سارے معالج ہوں گے اس کا انجام کیا ہو گا یہ تو اب عزرائیل سے پوچھنا پڑے گا کیونکہ وہ بھی ہماری سیاست میں اِن ہے، یہ 23جماعتیں سیاسی بیکری کا چُورا بُورا ہے جو تورا بورا بننے جا رہا ہے، بہرحال یہ امکانات کی دنیا ہے جس کا صدر مقام پاکستان ہے اس لئے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، سیاست نابالغاں کی یونیورسٹی میں تمام مضامین کی کلاسز شروع ہو چکی ہیں، ہر طالب علم ہی اس کا وائس چانسلر، پروفیسر اور اسٹوڈنٹ ہے انجام گلستاں کیا ہو گا۔ ہمارے ہاں اس بلا کا قحط الرجال برپا ہے کہ ایک غیر بیوقوف دستیاب ہے نہ دانشمند البتہ دانشور بر وزنِ طاقتور بتیہرے ہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، نیچے زمین وطن ہے اس کے اوپر عوام چت پڑے ہیں اور ان کے سینے پر سیاستدان حکمران مونگ دل رہے ہیں کچھ اپنی جنتوں کی طرف چل رہے ہیں کچھ اپنی ٹھنڈی آگ میں جل رہے، اور کچھ فقط لُچ تل رہے ہیں الغرض ہر طرف ہے ہوس برابر لگی ہوئی، گورننس غیر مرئی ہے مگر متاثرین نظر آتے ہیں، مشرف ہو یا کوئی اور سب عدالتوں میں مطلوب ہیں مگر وہ اس نیت کے ساتھ اقتدار بیگم کے تعاقب میں ہیں کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، اینکرز، تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اگلے پروگرام میں کیا کہیں گے، گویا سب خالی الذہن ہو کر بھی نان اسٹاپ لڑتے جاتے ہیں، چینلز اتنے ہیں کہ سب کو سن کر بھی ایک چینل مکمل نہیں سنا جا سکتا، بہرحال ہم داد دیتے ہیں مشرف پر الزام ہو کر بھی ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے عظم اتحاد تشکیل دے دیا ہے۔ اس کا کیا بنے گا تو اتنا ہی کہا جا سکتا ہے ’’کس کی سنی ہے عالمِ ناپائیدار میں‘‘
٭٭٭
ٹویٹر ان ایکشن
ٹویٹر اس قدر ان ایکشن ہے کہ ہر ٹوئٹ پر ایکشن ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، اشعار کی طرف توجہ کم ہو چکی تھی، اب تو ہر روز ٹویٹ شاعری افراط و تفریط سے پڑھنے کو ملتی ہے، یہ ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جس نے سیاسی عدم بلوغت پر کوئی پردہ پڑا نہیں رہنے دیا، رخ زیبا سے لے کر چھینک دلربا تک سے شائقین محظوظ ہو رہے ہیں، ٹویٹر نے ایک بڑا کارنامہ یہ بھی انجام دے دیا کہ اب غیظ و غضب بھی براستہ ٹویٹر خارج ہو جاتا ہے، اور پیٹ ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں، گویا یہ آلۂِ ترسیل حکیم حاذق کی پھکی سے کم نہیں، ٹویٹر عشق کے سوا ہر کام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، ترسیل عشق کے لئے آئی ٹی نے اور کئی ذرائع متعارف کرا رکھے ہیں، کہ جن پر عشق کے حسین تجربات کئے جا سکتے ہیں بس شرط ہے کہ عاشق ڈھیٹ ہو، خفیہ ہو ٹویٹ نہ ہو، کہ ٹویٹ تو ذریعہ اظہار عام ہے، ریٹنگ کے لحاظ سے اس وقت تک سابق دختر پاکستان کے ٹویٹ سرفہرست جا رہے ہیں، وہ معیاری اور پشوری ہوتے ہیں، دل تڑپ تڑپ کر خوش ہو جاتا ہے، جو کام ’’فرشتوں‘‘ سے بھی نہ ہو سکے وہ ٹویٹر برق رفتاری سے انجام دے دیتا ہے، اب یہ خوبصورت عارضہ ہمیں ہی نہیں پوری دنیا کو لاحق ہو چکا ہے۔ ٹویٹر سے پہلے اس کام کے لئے کان کے کچے افراد کو استعمال میں لایا جاتا تھا، اب ٹویٹر نے ایسے افراد کا کام بھی بند کر دیا ہے، اور کچے کان بھی پکے ہو گئے ہیں، اس ایجاد یا سائنسی سہولت کے ذریعے گھر بیٹھے سیاستدان بننے کا خواب کب کا شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے اور کوئی بھی سیاستدان اب شرمندہ نہیں ہوتا
بہتر تو ہے یہی کہ ٹویٹر سے دل لگے
پر کیا کریں کہ کام نہ بے ٹویٹ و ٹویٹ چلے
٭٭٭
مصطفیٰ کمال بجواب فاروق ستار
کمالِ فن ہو یا سترِ عیب ہو یہ دونوں ہنر مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار پر آ کر ختم ہو گئے ہیں، ایم کیو ایم کا نقش جس طرح کا بھی ہو کسی کے دل و دماغ سے مٹ نہیں سکتا، یو ٹرن تو عام تھا ہی کہ سیاسی سمر سالٹ بہت آگے نکل گئی، مہاجر سیاست اب مزید ہجرت نہ کرے، ٹک کر ایک جگہ کام کرے، اللہ بھلی کرے گا، اردو اگر واقعتاً قومی زبان ہے تو ہر پاکستانی مہاجر ہے اور اس کی ہر موومنٹ یعنی حرکت ہجرت ہے، دونوں لیڈرز اچھے ہیں، بنیاد دونوں کی پرانی مگر سیاسی جوانی نئی ہے، البتہ فاروق بھائی گرم سرد چشیدہ ہی نہیں مصطفیٰ کمال سے بڑے بھی ہیں، اس لئے دونوں میں ادب، لحاظ اور تعظیم کی خلیج بھی حائل ہے، سیاست میں دونوں کی ابھی پختگی نہیں آئی حالات کے پریشر ککر میں کچھ اور پریشر لیں گے تو پھر ان کی سیاست بھی لینڈ کروزر سیاست سے باہر نکل کر قومی خرابات کے سیاست خانے میں داخل ہو جائے گی، سیاست ایک عوامی ذمہ داری ہے جو ماں نہیں عوام کے حکم پر کی جاتی ہے، مگر ہمیں کوئی بڑا چھوٹا سیاستدان یہ بتائے کہ کیا ان کو سیاست میں عوام نے دھکا دیا تھا؟ یا وہ خود ہی باری باری ان پر بار بنے تھے، 70برس ہو گئے کہ عوام اس امانت کو اٹھائے ہوئے ہیں اور ارباب سیاست ان کو لمبا ’’پائے‘‘ ہوئے ہیں، سچی بات ہے کہ سیاست دوراں کی خرمستیوں بچگانہ پن نے قلم کو بھی بہت کچا کر دیا اور اب لاکھ کوشش کریں اہل قلم سے بھی کچھ باتیں کچا فکر سرزد ہو جاتا ہے، 70سالہ طویل رات ابھی سحر آشتا نہیں ہو سکی اور عوام کی حالت یہ ہے کہ؎
پھوڑا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
٭٭٭
خار زارسیاست کے پھول
....Oحدیبیہ کیس سپریم کورٹ میں،
بال کس کے کورٹ میں؟
....Oلٹن روڈ سود خوروں کا گڑھ،
کیا پاکستان لٹن روڈ ہے؟
....Oن لیگ کی پیپلز پارٹی سے مفاہمت کی ایک اور کوشش۔
وہ جدا ہی کب تھے کہ ملاپ ہو!
....Oعمران خان:نواز، زرداری نے لوگوں کو خریدا،
انسانی کاروبار غیر قانونی ہے، مگر لوگ بھی قصور وار، وہ کیوں بک جاتے ہیں۔
....Oشہباز شریف فضل الرحمان ملاقات،
سیاست میں مولانا کو کبھی خسارہ نہیں ہوا۔
....Oشیخ رشید:نواز شریف، ان کے حواری، عدالت پر کیچڑ اچھالنا چھوڑ دیں۔
آپ ہوائیاں چھوڑنا چھوڑ دیں، شب برأت کب کی گزر چکی،

تازہ ترین