• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ایک ہفتے سے پنجاب اور دیگر علاقوں میں اسموگ بڑی شدت سے پھیلا ہوا ہے دن کے وقت بھی راستہ صاف نظر نہیں آتا۔ حادثات ہو رہے ہیں جن میں کئی قیمتی جانیں بھی اس اسموگ کی نذر ہو چکی ہیں۔
حسب روایت وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے اسموگ کے لئے بروقت حفاظتی اقدامات نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ حکام اور محکمے کی سرزنش کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال گزر گیا محکمہ ماحولیات سمیت متعلقہ محکموں نے کچھ نہیں کیا۔اب سر پر پڑی ہے تو جاگ اٹھے ہیں۔ کیا سرکاری فرائض کی انجام دہی کا یہی طریقہ ہے؟ متعلقہ محکموں اور اداروں کو پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں تھے جبکہ انہوں نے محکمہ ماحولیات پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا کہ انہوں نےاسموگ کی پالیسی انگریزی زبان میں کیوں شائع کی ہے،یہ پالیسی اردو زبان میں شائع کرنی چاہئے تھی تاکہ عام آدمی کو اسموگ کی پالیسی کے بارے میں پتہ چل سکتا۔ اس کے علاوہ صحت کے مسائل سے آگاہی کے لئے بھی تمام معلومات اردو میں دینی چاہئیں۔ وزیر اعلیٰ نے یہ تمام باتیں بالکل درست کہی ہیں لیکن سوال یہ ہے آخر ایک برس تک محکمہ ماحولیات اور متعلقہ ادارے کیوں خاموش بیٹھے رہے؟ حالانکہ پچھلے برس بھی اسموگ سے یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی اور حادثات بھی ہوئے تھے ، اس مرتبہ توا سموگ وقت سے بہت پہلے آگیا۔ حکومت کا فرض تھا کہ وہ عوام کوا سموگ کا موسم آنے سے قبل خبر دار کرتی۔ حکومت جس طرح جگہ جگہ فلیکس لگا کر اشتہاری مہم چلا کر اپنی کارگزاری بیان کرتی ہے اسی طرح اسموگ کے بارے میں بھی بتایا جاتا۔اسموگ ان مریضوں کے لئے انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے جو دمہ، سانس اور ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں کیونکہ اس آلودہ ماحول میں رہنے سے ان کو سانس کی تکلیفیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لاہور میں رنگ روڈ کے پاس لاہور کا سارا کچرا پھینکا جاتا ہے اور اس کو یہاں آگ لگا دی جاتی ہے۔ اگر آپ کاکبھی وہاں سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شہر کا سارا کچرا کئی کلو میٹر ز تک پھینکا ہوا ہے بلکہ وہ اب زمین سے کئی فٹ تک بلند ہو چکا ہے جو محکمہ ماحولیات کی خراب کارکردگی کا ثبوت ہے۔ بے شمار فیکٹریوں سے ایسا مضر صحت دھواں خارج ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ آج تک اس محکمے نے عوام کی آگاہی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔میاں صاحب کو چاہئے کہ اس محکمے کی سال بھر کی کارگزاری کا آڈٹ کرائیں اور جائزہ لیں کہ اس محکمے نے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کیا۔دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جو فیکٹریاں ، کارخانے اور مل کبھی شہری آبادی سے دور ہوتے تھے آج وہ شہری آبادی کے درمیان آ چکے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں دھڑا دھڑ ہائوسنگ اسکیمیں بنائی جا رہی ہیں ، ان ہائوسنگ اسکیموں نے ایک زرعی رقبہ تباہ وبرباد کیا ہے جبکہ فراڈ علیحدہ ہو رہا ہے جس کے بارے میں آئے دن اخباروں میں خبریں آتی رہتی ہیں۔ اسموگ کے بارے میں محکمے کا فرض تھا کہ وہ لوگوں کو آگاہ کرتا، حالت یہ ہے کہ محکمہ موسمیات اور محکمہ ماحولیات دونوں نے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ضروری ہے کہ محکمہ ماحولیات فوری طور پر عوام کی آگاہی کے لئے کوئی مہم شروع کرے، اسکولوں، کالجوں میں آگاہی لیکچرز دیئے جائیں اور رنگ روڈ پولیس جو صرف چالان پر زور رکھتی ہے اس کا فرض تھا کہ اس موسم میں رنگ روڈ پر جانے والوں کو آگاہ کرتی یا رنگ روڈ بند کرتی اور جگہ جگہ ایسے اسٹیکرز لگاتی جو رات کو چمکتے ہیں۔رنگ روڈ پر بعض جگہوں پر ایسا ٹرن آتا ہے جو اسموگ کی وجہ سے نظر نہیں آتا اور وہاں حادثات ہوتے رہتے ہیں ظاہر ہے اسموگ کا مسئلہ عارضی نہیں ہے اب تو یہ ہر سال کا مسئلہ بن گیا ہے اس کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسموگ میں پھرنا دو سگریٹ پیکٹ پینے کے برابر ہے۔ یہ دھواں دمہ اور کینسر کا باعث بنتا ہے اور ماسک پہن کر پھرنا چاہئے۔ حکومت نے پچھلے دنوں تین سرکاری اسپتالوں کے انتظامات کو آئوٹ سورس کیا۔ آئوٹ سورس میں ایم آر آئی، سی ٹی اسکین، ایکسرے، لیبارٹری، صفائی، کار پارکنگ اور دیگر چیزیں شامل ہیں بلکہ ایک دو سرکاری اسپتالوں کی مکمل طور پر نگرانی بھی ایک پرائیویٹ ادارے کے سپرد کر دی گئی ہے۔ کتنی دلچسپ اور مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی جگہ سرکار کی، بجٹ سرکار کا، عملہ سرکار کا، بلڈنگ سرکار نے بنا کر دی، صرف نگرانی کے لئے آپ نے ایک پرائیویٹ کمپنی کے سپرد اسپتال کر دیا۔ اور بعض جگہوں پر اسٹاف کمپنی کا ہوگا۔ اس وقت آئوٹ سورس حکومت اس لئے کر رہی ہے کہ سرکاری اسپتالوں کے معاملات اور مسائل ایک عرصے سے بگڑے ہوئے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے بار بار سرکاری اسپتالوں پر چھاپے مارنے سے بھی مریضوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ چنانچہ حکومت نے یہ فیصلہ مریضوں کی فلاح و بہبود کے لئے کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ صحت میں اس وقت بے شمار کنسلٹنٹ، ڈائریکٹرز، ڈی جی ہیلتھ، دو سیکرٹری ہیلتھ، کئی ہیلتھ کی ایجنسیاں و ادارے اور دو وزراء صحت کے ہوتے ہوئے بھی اگر مسائل حل نہیں ہو رہے تو پھر آپ اتنے بھاری بھرکم مشاہرہ پر لوگ کیوں بھرتی کر رہے ہیں؟ جب آپ کوسرکاری اسپتال کا ہر شعبہ آئوٹ سورس ہی کرنا ہے تو محکمہ صحت کے عملے میں کمی کی جائے جو بھاری بھرکم تنخواہوں پر کنسلٹنٹ رکھے جا رہے ہیں۔ کسی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اور کسی کو طویل رخصت دے کر دوبارہ بطورکنسلٹنٹ کے رکھا جا رہا ہے، اس کی کیا ضرورت ؟پھر حال ہی میں ایک اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ سینٹرل لیب بنائی جائے گی۔ تمام سرکاری اسپتالوں کے مریضوں کے ٹیسٹ اس لیبارٹری میں ہوں گے جبکہ لیبارٹری بھی سرکاری اسپتالوں سے کافی فاصلے پر ہے۔ ہر سرکاری اسپتال سے سیمپل وہاں جائے گا، کیا حکومت کے پاس وہ گاڑیاں ہیں جو موسم کی شدت کے پیش نظر ان کا اندرونی ٹمپریچر کنٹرول میں رکھ سکیں تاکہ سیمپل خراب نہ ہوں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ تمام سرکاری اسپتالوں میں قائم لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کرکے ان کے اوقات بڑھاتے۔ آج ہر سرکاری اسپتال کی لیبارٹری دو بجے بند ہو جاتی ہے صرف ایمرجنسی میں انتہائی ضروری کلینکل ٹیسٹوں کی سہولت ہوتی ہے جبکہ آئوٹ ڈور اور ان ڈور مریضوں کو دوپہر دو بجے کے بعد یہ سہولت نہیں ملتی۔ اب اگر آپ نے ایسا ارادہ کرلیا ہے کہ ایک سینٹرل لیبارٹری بنائی جائے گی اور اس میں تمام ٹیسٹ ہوں گے اور وہیں جائیں گے تو اس سے مزید کئی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہوں گے۔ دل کے مریضوں کی دوران سرجری اور دیگر علاج کے دوران بار بار کلینکل ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں۔ حکومت صرف اسپتالوں کو آئوٹ سورس کر رہی ہے کیونکہ وہاں مسائل ہیں تو پھر حکومت کو چاہئے کہ محکمہ ایکسائز، پولیس، انکم ٹیکس اور وہ تمام محکمے جن میں پبلک ڈیلنگ ہوتی ہے ان کو بھی آئوٹ سورس کردیں کیونکہ سب سے زیادہ شکایات لوگوں کو پولیس سے ہیں۔ آئوٹ سورس مسائل کا حل نہیںہے بلکہ مسائل کو پیچیدہ کرنے کا نام ہے۔ خاص طور پر جب سرکاری محکموں کی INVOLVEMENT بھی ہو اور ٹھیکیداری سسٹم بھی چل رہا ہو جس نے بھی حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے وہ قطعی طور پر حکومت سے مخلص نہیں۔

تازہ ترین