• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم ان دنوں ایک ہمہ پہلو بے یقینی کے دور سے گزررہی ہے جس کے منفی اثرات و نتائج محتاج وضاحت نہیں ۔ ملکی معاملات ہوں یا بین الاقوامی سب پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلارہے ہیں۔ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، مردم شماری کا تناز ع کیا رنگ اختیار کرے گا،موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا ملک کو ایک بار پھر ٹیکنو کریٹ انتظامیہ یا کسی اور نام سے کسی غیر جمہوری تجربے سے گزرنا پڑے گا، کیاپارلیمانی سسٹم کو صدارتی نظام سے بدلنے کی کوشش کی جائے گی جس کے لیے بعض بااثر عناصر مسلسل لابنگ کررہے ہیں،احتساب کا سب کے لیے یکساں، شفاف، بلاامتیاز اور بے لاگ نظام بنایا جاسکے گا یا موجودہ نظام ہی چلتا رہے گا جس کا ہدف بالعموم صرف سیاسی شخصیات بنتی ہیں،سیاسی شخصیات کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے ممکنہ نتائج ملک میں عوامی قیادت کا جو ہولناک خلا پیدا کرسکتے ہیں اس سے کس طورعہدہ برآ ہوا جائے گا،افغانستان اور پاکستان کی باہمی شکایات کی حقیقت کیا ہے اور یہ دور ہوسکیں گی یا نہیں،دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نہ ختم ہونے والے امریکی مطالبات سے کس طرح نمٹا جائے گا ، سندھ طاس معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا،کالا باغ ڈیم پر اختلافات ختم ہوں گے یا نہیں ، دیگر نئے ڈیم بھی ملک میںپانی کا مکمل قحط شروع ہونے سے پہلے بنائے جاسکیں گے یا وہ بھی لیت و لعل ہی کا شکار رہیں گے،یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے سوالات آج ملک کے ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کررہے ہیں۔ ان معاملات میں قومی اتفاق رائے پیدا کرکے اور متفقہ لائحہ عمل اپناکر ہی بے یقینی اور شکوک و شبہات کی موجودہ کیفیت کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ ترجیحات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے بڑا معاملہ آئندہ عام انتخابات کا ہے۔اگر اس بارے میں یکسوئی ہوجائے کہ ان کا انعقاد کب عمل میں آنا ہے تو اس حوالے سے جاری مہم جوئی ختم ہوجائے گی اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہوجائیں گی۔ حکومت اور پیپلز پارٹی سمیت بیشتر سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد ملک کے دستور کے مطابق ساٹھ دن کے اندر انتخابات چاہتی ہیں تاہم تحریک انصاف کے قائد عمران خان وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن اس امر کو بارہا واضح کرچکا ہے کہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق قانون سازی کے بعد ہی انتخابات کی تیاری شروع کی جاسکتی ہے اور یہ کام دس نومبر تک ہوگیا ہوتا تب ہی آئندہ سال وقت مقررہ پر انتخابات کا اہتمام ممکن تھا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ ہونے کی وجہ سے اب الیکشن کمیشن پانچ جون 2018 کو اسمبلیوں کی میعاد پوری ہونے کے بعد ساٹھ دن کے اندر یعنی پانچ اگست 2018ء تک انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں اور الیکشن کی تاریخ کا تعین نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ہی ہوسکے گا جو لازماً پانچ اگست کے بعد کی ہوگی۔ اس لیے یہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تو اب فی الحقیقت بے وقت کی راگنی ہے اور اس کا کچھ حاصل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انتخابات کو آئندہ سال اگست یا ستمبر میں یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتیں نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر اپنے اختلافات کو مزید کسی تاخیر کے بغیر حل کریں اور ملک کو درپیش دوسرے اہم معاملات پر بھی یکساں قومی حکمت عملی اپنانے کے لیے بات چیت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں۔اس مقصد کے لیے کل جماعتی قومی مشاورت کا اہتمام یقیناً نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے ۔ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے ایک قریب ترین دہشت گردی کے خلاف متفقہ حکمت عملی کی تشکیل ہے۔موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک بار پھر یہ قدم اٹھایا جانا قومی مفاد کا ناگزیر تقاضا ہے۔ لہٰذاوزیر اعظم کو اس سمت میں جلد از جلد پیش رفت کرنی چاہیے جبکہ اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ وہ قوم کو بے یقینی کی کیفیت سے نکالنے کی اس کوشش میں پوری کشادہ دلی سے تعاون کرے اور ملک کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنائے۔

تازہ ترین