• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی سیاست کا حال بچپن کے ایک دلچسپ کھیل جو عموماً پنجاب میں کھیلا جاتا تھا’’باندر کلاّ ‘‘ جیسا ہے جس میں باری باری ایک شخص کو بندر بنا کر ہاتھ میں رسی پکڑا دی جاتی تھی اور اردگرد سب کھلاڑیوںکے نئے پرانے جوتوں کا ایک دائرہ کھینچ دیا جاتا اور’’بندر‘‘ کا کام ان جوتوں کی حفاظت کرنا ہوتا تھا۔ اس کھیل کے باقی تمام کھلاڑی مختلف زاویوں سے ان جوتوں کو چھیننے کی کوشش کرتے۔ اگر ’’بندر‘‘ کا ہاتھ جوتا چھیننے والے کسی کھلاڑی کو چُھو جاتا تو وہ بندربنتا ۔ اس کھیل کادلچسپ پہلو یہ تھا کہ جب بندر جوتوں کی ٹھیک طرح سے رکھوالی نہیں کرپاتا تھااور دائرے سے باہر کھلاڑی ایک ایک کرکے تمام جوتے چھین لے جاتے تو بندربنا شخص ’’کلاّ‘‘ رسی توڑ کر بھاگ جاتا۔ مگر اس دوران دائرے سے باہر کھڑے کھلاڑی ایک ہجوم کی شکل میں بندر کو اندھا دھند جوتے مارتے، شور مچاتے، ہاہو کار کرتے پیچھے بھاگتے، پورے محلے میں ایک ہنگامہ برپا ہوتا ، کوئی بیچ بچائو کرانے کی کوشش کرتا، کوئی قہقہے لگاتا، مگر بندر کی حالت انتہائی پتلی ہوتی۔ اکثر اس کھیل کا اختتام لڑائی جھگڑے پر ہی ہوتا نظر آیا۔ انسان سمجھتا ہے اس کا کلاّ بڑا مضبوط ہے، درحقیقت وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔ یاد رکھیں جوتے چرانے والے کھلاڑی بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ سابق وزیراعظم سربراہ مسلم لیگ (ن) میاں محمد نوازشریف آج جس صورت حال سے دو چارہیں کہا جاسکتا ہے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ تیسری بار اقتدار سے نکالے گئے بڑے میاں صاحب کو خود بھی کچھ معلوم ہونا چاہئے کہ آخرانہیں کیوں نکالا؟ خود احتسابی ، ماضی سے سبق سیکھنا اسی کو کہتے ہیں، جو انسان خود فریبی کا شکار اور ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہ ہو تو دنیا اسے ناکام قرار دیتی ہے یا ہٹ دھرم۔ آج پاکستانی معاشرے میں مجھے کیوں نکالا؟ محاورتاً استعمال ہونے لگا ہے۔ جہاں تک بڑے میاں صاحب کا تعلق ہے تو بس اتناہی کافی ہے کہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ لیکن کچھ فہم و فراست سے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی نواز ا ہے۔ اگر اسے ٹھیک سے استعمال کیا جاتا دوست نما دشمنوں کی بجائے قریبی دیر ینہ اور آپ پر قربان ہونے والے ساتھیوں پر اعتماد کیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے حقیقی بھائی چھوٹے میاں صاحب پر بھی بھروسہ نہ کیا۔ کاش آپ انہیں اپنی جگہ وزیراعظم بنا دیتے تو معاملات کی بہتری کی کوئی صورت نکلتی۔ یقیناً وہ آپ کا دفاع شاہد خاقان عباسی سے زیادہ بہتر کرتے۔ انہیں سنگین معاملات کا بہتر ادراک تھا۔ کاش آپ میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتے، پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر آگے بڑھتے، اتحادیوں کو وقتی طورپر استعمال کرنے کی بجائے ، دل سے لگا کر رکھتے تو آج یہ صورت نہ ہوتی۔ کاش آپ پانامہ کیس کے دوران قانونی جنگ سڑکوں کی بجائے عدلیہ میں لڑتے ، زبان درازی نہ کی جاتی، اداروں کو نشانہ نہ بنایا جاتا تو آج جو صورت حال آپ کے ہاتھوں سے نکل چکی، ہاتھ میں ہی رہتی۔ آپ کے دوست ، سیاسی حریف آصف زرداری نے اب آپ کو باندر کلّے کے کھیل میں برُی طرح الجھا لیا ہے ۔ عمران خان تو پہلے ہی دن سے آپ کے دائرے سے ایک ایک کرکے جوتے نکال ہی رہے تھے۔ اب تو صورت حال بالکل کلاّ توڑ کر بھاگنے والی ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستارکی باری لگنے ہی والی تھی کہ بال بال بچے ورنہ مصطفی نے تو بڑے کمال سے انہیں بندر بنا لیا تھا، ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی والے ہیں بڑے کمال کے لوگ، سیاسی طور پر ہوشیار، چوکنا،حالات کی نزاکت کو سمجھنے والے، دیکھتے ہی پلٹا مار جاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی سیاسی جدوجہد، تدبرّ، ایم کیو ایم سے نظریاتی وابستگی اورپختگی سے انکارممکن ہی نہیں۔ جمہوری جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے لیکن ان کی نئی لائن کے باعث کہیں باندر کلّے کے کھیل میں ان کی باری بھی نہ آجائے۔ لگتا یہی ہے کہ اب ایم کیو ایم والے بندر بنیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی والدہ کی دعا سے بازی پلٹے گی۔ شائد اب مصطفی کمال کو ہی ’’نئے نائن زیرو‘‘ جانا پڑے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی ایک ہی رات میں بانی ایم کیو ایم کے انداز میں یکے بعد دیگرے دو جذباتی پریس کانفرنسوں میں ’’ الطاف صاحب‘‘ اور’’ مصطفی کمال بھائی‘‘ کہنا بس یوں سمجھئے کہ انہوں نے بھی تماشا دیکھنے والوں کو بندر بنا لیا اور خود بھی بن گئے۔ بوکھلاہٹ اور خوف کے ماحول میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں سندھ کی سیاست پر کیا اثرات مرتب کریں گی یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اہل تماشا کو پیغام دے دیا کہ اگر یوں نہیں تو پھر یُوں ہی سہی۔ اب مزاحمت کی سیاست ہی ہوگی۔ اس فیصلے سے اگر چہ وہ وقتی طور پر ڈوبتے ڈوبتے بچ گئے اور متحدہ کے اندرونی اختلاف پر ڈھکن رکھنے میں کسی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے سیاست دان کب تک بندر بنتے رہیں گے۔ کلاّ توڑ کر بھاگتے رہیں گے۔ اپنے دائرے کے اندر رکھے جوتوں کی حفاظت کرنا انہی کی ذمہ داری ہے۔ کلّے توڑ کر دوسری جماعتوں میں سیاسی پناہ تلاش کرنے کا کھیل ہمیں کب تک برباد کرتا رہے گا۔
نظریہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کیا عوام کوبندر بنانے کی یہ روش ہمیں ہماری منزل تک پہنچا دے گی؟ اور کیا یہ ٹوٹ پھوٹ ہمارے معاشرے پر اثر انداز نہیں ہوگی؟ سچ تو یہ ہے کہ انسان ساری زندگی اسی فریب میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لئے ناگزیر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ مر جانے سے بھی کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف انسان کے اعمال ہی ہیں جو اسے تاریخ میں امر کر جاتے ہیں۔ آج ہمارے سیاست دان عوام کو بندر بنا رہے ہیں توکل وہ خود بندر بنیں گے اور آگے کا حال تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں، ایک شور اٹھے گا، ہنگامہ برپا ہوگا، صلح کار ناکام ہو جائیں گے، دست و گریباں ہونے کے بعد جوتے پڑیں گے اور بندر کلّے کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ پھر ایک نئے بندر کی تلاش ہوگی۔ بہتر یہی ہے کہ سڑکوں پر کھیل تماشا کرنے کے بجائے ایک مرتبہ پھر عوام سے ہی رجوع کر لیاجائے۔ آثار تو یہی نظر آتے ہیں کہ پھر کوئی حادثہ ہوگا، ہنگامہ برپا ہوگا، اسلام آباد میں کچھ لوگ دھرنادیئے بیٹھے ہیں ، میاں صاحب میدان میں نکل رہے ہیں،خان صاحب پہلے دن سے ہی میدان سجائے بیٹھے ہیں۔ ایم ایم اے دوبارہ وجود میں آچکی، پرویز مشرف کو بھی ایک نام نہاد سیاسی پلیٹ فارم فراہم کر دیا گیاہے۔ ہرطرف سیاسی ہاہو کار مچی ہے، بظاہر ’’بڑی سرکار‘‘ آنے کے آثار نہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کی بوکھلاہٹ، اداروں سے ٹکرائوکی سیاست کا انجام بھی آپ بخوبی جانتے ہیں۔

تازہ ترین