• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب کے دریائوں کا پانی بند کرکے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ پڑوسی ملک کی طرف سے آبی دہشت گردی کے اس مسلسل عمل کو روکنے کیلئے ہمارے ارباب اختیار کی جانب سے عالمی سطح پر موثر آواز اٹھائی جائے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بھارت نے ستلج ، راوی، بیاس کا مکمل اور چناب کا 50ہزار کیوسک پانی روک دیا ہے۔ جس سے چاروں دریائوں سے برآمد ہونے والی 90کے قریب نہریں مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہیںاور خریف کی فصل کیلئے پانی دستیاب نہیں۔ 1960میں ہونے والےسندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت دریائے چناب میں 55ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے۔ تاہم اس نے مقبوضہ کشمیر اور ہماچل پردیش میں ڈیم تعمیر کرکے ان کا لیول اپ کرنے کیلئے چناب کا پانی روک دیا اور ہیڈ مرالہ کے مقام پر 55ہزار کے بجائے 5461کیوسک پانی کی آمد ریکارڈ کی جارہی ہے۔ اسی طرح انڈس ٹریٹی اور عالمی قوانین کے تحت ستلج، بیاس اور راوی میں پائے جانے والی آبی حیات کے تحفظ کیلئے پانی چھوڑنا ضروری ہے۔ بھارت نے عالمی قوانین پامال کرتے ہوئے ان دریائوں پر ڈیم تعمیر کرکے ان کا پانی مکمل طور پر روک لیا جس سے نہ صرف یہ دریا ریگستان میں تبدیل ہوگئےبلکہ آبی پرندے و جانور بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔یہ کھلی حقیقت ہے کہ بھارت کبھی دریائوں کا پانی روک کر تو کبھی سیلابی پانی کا رخ موڑکر وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے اپنے اعلانیہ ایجنڈا پر عمل پیرا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوںہم اپنا مقدمہ عالمی برادری کے سامنے موثر طریقے سے اٹھانے میں ناکام رہے اورعالمی اداروں کی جانب سے مستقبل میں پانی کی سنگین قلت کے انتباہ کے باوجود اس مسئلے کو سیاست کی نذر کرتے ہوئے گزشتہ دو دہائیوں سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنایا۔کیا ہی اچھا ہوکہ ملکی بقا کےاس اہم معاملے پر ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر اجتماعی سوچ پروان چڑھانے کیلئے سماجی وسیاسی حلقے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔

تازہ ترین