• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحتمند جمہوری معاشروں میں اپنے اپنے نظام حکومت و سیاست کے مطابق عام انتخاب کا انعقاد سب سے بڑی قومی سرگرمی ہوتی ہے۔ انتخابی شیڈول کے اعلان اور اس کی مہم شروع ہونے سے تشکیل حکومت تک اس کے تمام مراحل ملک گیر گہما گہمی اور عوامی دلچسپی سے پر ہوتے ہیں۔ مقبول عام سیاسی قائدین اور ان کی جماعتیں مکمل چارج ہو کر ایک با ر پھر خود کو حکمرانی کا مستحق ثابت کرنے کے لئے میدان میں اتر کر عوام سے ابلاغ مسلسل کرتے ہیں۔ برسراقتدار حکومتی جماعت اقتدار کی باری کے آخری سال میں عوامی نوعیت کی ترقیاتی سرگرمیوں کو تیز اور اپنی گورننس کو بہتر بنانے پر انہماک کرنے لگتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعت یا جماعتیں اس سے بھی پہلے حکومتی پالیسیوں، اقدامات اور گورننس کے ہر ہر پہلو پر تنقید کے تیر و نشتر برسانے کا ایسا سلسلہ شروع کرتے ہیں جو اصل میں حکومت کو عوام مخالف اور اپنے مفاد کا اسیر ثابت کرنے کی ممکنہ تگ و دو ہوتی ہے، جسے اس عوامی یقین سے متوازن کرنا بھی لازم ہوتا ہے کہ ان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں عوام کی موجودہ مشکلات کم تر اور فلاح کا سامان زیادہ سے زیادہ ہوگا، ملک پہلے کی نسبت سیاسی و اقتصادی طور پر مستحکم ہوگا۔ یہی ابلاغ عامہ انتخابی مہم کا محور ہوتا ہے، یہی جمہوری عمل مملکت کو مستحکم اور عوام کو خوشحال ، محفوظ و مطمئن کرتا جاتا ہے۔
کیا پاکستان میں بھی آئینی تقاضے کے مطابق عام انتخابات کا انعقاد فقط اسی سیاسی و جمہوری عمل کے فریم میں ایسے ہی ہوتا ہے؟ جی نہیں، ہمارے انتخابات کے انعقاد اور تشکیل حکومت کے مرحلے تک کا آئینی دائرہ تو یہی ہوتا ہے لیکن عملاً یہ اپنے کتنے ہی مزید جملہ پہلوئوں کا حامل ہے، مثلاً نگران حکومت پر اپوزیشن کا عدم اعتماد ،اپوزیشن جماعتوں میں الیکشن کمیشن کا بھی حکومت کے حق میں جانبدار ہونے کا دھڑکا ، حلقہ بندیوں پر آخری وقت تک برقرار رہنے والا اختلاف، الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اپنے ہی ضابطوں کی پابندی کرانے پر عدم اعتماد، مشکوک پولنگ ڈے مینجمنٹ ، سب سے بڑھ کر الیکشن کمیشن کا متنازع اور انتخابات کاشکوک سے پر ہونا۔ یہ دھڑکے اور بداعتمادی انتخابی نتائج آنے پر برقرار ہی نہیں رہتی بلکہ اور تیز ہوجاتی ہے تو اقتدار کا نیا دور شروع ہی مشکوک کسی حد تک متنازع اور منفی سیاسی و جمہوری عمل سے ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ کوئی ہوا میں نہیں ہوتا، ان اور بہت سی کئی اور وجوہات کی موجودگی انتخاب کے انعقاد اور نتائج آنے پر مشکوک فضا کا باعث بنتی ہے جو بذریعہ میڈیا ملٹی پلائے ہو کر نیم سیاسی انتشار میں بدل کر بڑھتی جاتی ہے۔اپوزیشن اس کی ذمہ داری حکومتی غیر جمہوری روش پر ڈالتی ہے اور حکومت اپوزیشن کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اسے عوام کی طرف سے مسترد ہونے کا ڈپریشن قرار دے کر اس کے سینے پر مونگ دلتی رہتی ہے۔
پاکستان میں کتنے ہی انتخابات ان ہی رونے دھونوں، احتجاج، دھڑکوںاور شکوک کے ساتھ ہوتے چلے آرہے ہیں، جیسے کوئی یہ انتخابات کا لازمہ ہیں، حالانکہ آئین و قانون کے تقاضے الیکشن کمیشن اور واضح انتخابی نظام کی ضرورتیں واضح ہونے کے باوجود اگر انتخابی عمل اتنا ناقص اور بے اعتماد ہے تو اس کی ذمہ دار تمام ہی پارلیمانی سیاسی جماعتیں خصوصاً برسراقتدار اور سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ ہے۔
ہوتا یہ آرہا ہے کہ اقتدار کی باریاں باری باری لینے والی دونوں روایتی جماعتیں ایسے ہی چلتے رہنے پر بخوشی راضی رہیں۔ انہیں کیا پڑتی کہ غیر اعلانیہ مفاہمت کے مطابق جب انہیں اقتدار کی باری مل جاتی، سو اگلی کے لئے دوسری کی باری کو اب ذہنناً قبول کرتے ،ایسے میں مشکوک انتخابات پر تھوڑی سی بیان بازی کے اتمام حجت کے سوا کیا ضرورت ہوتی کہ وہ اس کی اصلاح کے لئے کوشش کرتی یہ تو بھاری ذمہ داری پی ٹی آئی کی تھی جو اپنے دعوئوں ( اور عوام اور دوسری جماعتوں کے الزامات ) کے بعد فرینڈلی آر اوز کے انتخابات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ طویل دھرنا اس پر احتجاج کا ہی غیر معمولی فالو اپ تھا لیکن انتخابی اصلاحات کے لئے عمران خان اپنے طور اور ان کی جماعت نے کوئی توجہ نہ دی، سب کچھ پارلیمنٹ کی کمیٹی میں اپنے نمائندے جناب عارف علوی پر چھوڑ دیا۔ اب عمران خان اس عزم کا اظہار تو کررہے ہیں کہ اب ہم دھاندلی نہیں ہونے دیں گے لیکن کیسے؟ اس کے لئے انہوں نے کیا کیا ہے؟آج بھی حلقہ120کے ضمنی انتخاب میں انتھک اور لائق فائق امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد 29 ہزار غیر مصدقہ ووٹوں کے خلاف پٹیشن فائل کرچکی ہیں اور ایاز صادق جن کا اسپیکر ہو کر بھی اسمبلی میں ن لیگی ہونا واضح ہوچکا، کی ضمنی انتخاب میں دوبارہ جیت پر آج بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔عمران، قادری دھرنے کے بعد انتخابی اصلاحات کا جو غوغا ہوا تھا، وہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام نے ختم کردیا، نہ قوم کو یہ معلوم ہے کہ کمیٹی نے اپنے کام سے کس کس طرح آنے والے انتخاب کی شفافیت کو یقینی بنادیا ہے؟ اب تو عمران خان بھی اس پر متفکر معلوم نہیں دیتے، کہیں ایسا نہ ہو کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے پر قوم کو غیر جانبدار اور آزاد انتخاب کا یقین دلانے کے لئے پھر ایک مرتبہ’’فوج کی نگرانی‘‘ پر ہی تان ٹوٹے، جو اپنے محدود اختیار سے پولنگ اسٹیشنز پر امن قائم رکھنے میں تو کامیاب ہوتی ہے لیکن پولنگ ڈے کی جو فنکاریاں ریٹرننگ آفیسرز کے نیٹ ورک اور ’’نادرا‘‘ کے نتیجہ خیز’’تعاون‘‘ سے ہوتی ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ہونے والے سیاسی ابلاغ میں بھی اس سنگین مسئلے کو ایڈریس کرنا شروع کریں، خصوصاً پی ٹی آئی، اگر اس کے پاس کوئی’’ ترمیمی مسودہ قانون‘‘ ہے تو اسے قوم کے سامنے قابل فہم انداز میں پیش تو کرے تاکہ اس کی تائید و حمایت سے قومی اسمبلی میںمنظور کرکے نافذالعمل کیا جائے کہ اب ن لیگ کے پارلیمانی گروپ کے دھڑے بندی میں یہ ہوبھی سکتا ہے۔
اس مرتبہ پی پی بھی کسی مغالطے میں نہ رہے کہ غیر اعلانیہ مفاہمت کے مطابق اس کی باری ہے جو اسے لینے دی جائے گی، احتساب کا عمل شروع ہوچکا جس سے شریف خاندان لڑرہا ہے۔ مریم نواز کے و زیر اعظم بننے کی خواہش نے بھی’’مفاہمت‘‘ کو تقریباً ختم کردیا ہے، یوں بھی اگر ن لیگ کے جوں کے توں زندہ رہنے کا معجزہ اسی طرح ہوجاتا ہے کہ جناب نواز شریف کی سربراہی میں ہی ایک بار پھر عام انتخابات میں حصہ لے سکے تو یہ انتخاب جیتنے کے لئے اپنے فن کی مہارت سے کہیں زیادہ ان پٹ ڈال کر ہر حالت میں اسے جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گی کہ یہ اس کی سیاسی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ سو، پی ٹی آئی ہی نہیں پی پی کو بھی ہوش میں رہنا ہوگا۔ ویسے بھی جنوبی پنجاب کے راستے پی پی کو پھر ایک موقع ملنے والا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی پارلیمانی حیثیت کو بحال کرنے کے لئے پورا زور لگادے۔ اس کی فقط صوبائی حیثیت (جو اس مرتبہ بھی پنجاب میں پھر جھاڑو پھرنے سے مسلمہ ہوجائے گی) کوئی نیک شگون نہ ہوگا، تاہم عمران خان نے کوئی انتخابی معرکہ مار لیا تو، احتساب کا دائرہ اس تک بھی وسیع ہو کر وہ احتسابی عمل میں آجائے گی، اس وقت تک شریف خاندان اتنا زیر احتساب آچکا ہوگا کہ قوم کو یہ توازن بآسانی ہضم ہوگا۔
اتنا آسان تو نہیں لیکن جس طرح ن لیگ کی منتظر بغاوت واضح ہے اور پی ٹی آئی ہی آنے والے انتخاب کا ہاٹ کیک معلوم بھی دے رہی ہے، نئی صورت کو سنبھالنے کی اس کی کوئی تیاری معلوم نہیں دے رہی۔
ایک گزارش پارٹیوں کے عاقل اور بالغ مقامی قائدین اور کھرے سیاسی ورکرز سے ہے کہ خدارا وہ پارٹیوں میں انتخابی امیدواری کے ٹکٹ کی تقسیم کے قابل قبول پارٹی نظام بنانے پر توجہ دیں اور کوالٹی پارلیمان جو بقائے جمہوریت کی شدید ضرورت بن گئی ہے، کو یقینی بنانے کے لئے امیدوار کسی بنیادی اہلیت اور ساکھ کو واضح کریں۔ ٹکٹ کی فروخت اور قائد پر اس کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے متحد ہو کر آواز اٹھانے کی ہمت کریں۔ اتنا جمہوری عمل چلنے،احتسابی عمل ممکن ہونے اور اس کے ساتھ جمہوری نظام بدستور بچے رہنے کے بعد اب سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران پارٹی قائد اور خاندان کی منفی اجارہ داری کی بیخ کنی کے لئے کردار ادا نہیں کرتے تو وہ سیاستدان یاور کرنہیں کسی اور دھندے میں ہیں۔

تازہ ترین