• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے وجہ ہم کسی کو ناپسند نہیں کرتے۔ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ اسباب ضرور ہوتے ہیں جن کے باعث ہم کسی کو پسند نہیں کرتے۔ اسباب کی فہرست پیچیدہ ہے۔ عام طور پر ہم ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو لوگ ہم سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو ہم سے زیادہ محنتی ہوتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو ہم سے زیادہ منظم اور طاقتور ہوتے ہیں۔ زندگی کے کسی بھی میدان میں ہم اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی اعلیٰ کارکردگی، حکمت عملی اور زبردست انتظامی امور کے باعث اپنی برتری ثابت کرتے ہیں۔ ان کے سامنے ہمارے پول کھل جاتے ہیں۔ پچھلی کتھا میں، میں نے عرض کیا تھا کہ بات شہروں، قصبوں، روڈ راستوں، گلی کوچوں اور پارکوں کے نام بدلنے تک محدود نہیں ہے۔ اب بات نکلی ہے تو بہت دور تلک جائے گی۔ بات دور تلک چلی گئی ہے۔
بٹوارے سے پہلے برصغیر کے ہندو اور مسلمان انگریز کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک لحاظ سے انگریز سے نفرت کرتے تھے۔ اپنے دو ڈھائی سو سالہ دور حکومت میں انگریز نے ہندوستان کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ انگریز نے ہندوئوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہندوستان فتح کیا تھا۔ انگریز کے آنے سے پہلے مسلمانوں نے پانچ سو برس تک ہندوستان پر بھرپور طریقے سے حکومت کی تھی۔ مسلمانوں کی فتوحات سے پہلے ہندوستان ہندوئوں کا ملک تھا۔ ہندو راجائوں مہاراجائوں ، مسلمان بادشاہوں اور شہنشاہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں مندر اور مسجدیں بنوائیں۔ مقبرے، قلعے، محل، باغ باغیچے اور شکارگاہیں بنوائیں۔ تعمیراتی تاریخ کو نادر نمونے دیئے۔ راجائوں، مہاراجائوں، بادشاہوں اور شہنشاہوں نے نہ بنوائے اسکول، نہ کالج اور نہ یونیورسٹیاں، انہوں نے دھرم شالائیں اور مدرسے بنوائے جہاں عام ہندوستانی کو دین دھرم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ عام ہندوستانی دینوی جان بوجھ سے نابلد تھے۔ انگریز کو ہم لاکھ برا کہیں، مگر انگریز نے جن جن ممالک پر حکومت کی وہاں کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ انگریز جہاں کہیں گیا اس نے وہاں پر تعلیم و تربیت کو اولیت دی۔ صنعت و حرفت کو فروغ یا ہر سطح پر خواندگی کو فوقیت دی۔
آپ سوچیں، آپ غور کریں ، خود سے کچھ سوال پوچھیں۔ ہم مسلمانوں نے ہندوستان پر پانچ سو برس حکومت کی تھی۔ ہم نے سوائے مقبروں، محلوں، قلعوں باغ باغیچوں اور بہت بڑی تعداد میں خستہ حال، مفلس اور ان پڑھ نو مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کو کیا دیا؟ ہندو دھرم کے چوتھے طبقے میں باقی تین اعلیٰ طبقوں سے تعداد میں بہت زیادہ لوگ ہوتے ہیں۔ وہ غریب اور نادار ہوتے ہیں۔ اچھوت ہوتے ہیں ان سے بھید بھائو رکھا جاتا ہے۔ اعلیٰ طبقے کے ہند و اچھوتوں سے نفرت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے پانچ سو سالہ دور حکومت میں ہندوئوں کے پسے ہوئے طبقے کے لوگ، اچھوت بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے تھے۔ ایک اور سوال اپنے آپ سے پوچھے۔ ہم مسلمانوں کے پانچ سو سالہ دور حکومت میں بھگت سنگھ، چندر شیکھر، منگل پانڈے سبھاش چندر بوس اور ہیموکالانی جیسے انقلابی پیدا کیوں نہیں ہوئے تھے؟ ہندوستان کے عام آدمی نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی تھی؟ ہماری اپنی زبانوں کی ایک کہاوت ہے، بلی شیر پڑھایا، پھر شیر بلی نوں کھاون آیا۔ انگریز نے اپنے دو ڈھائی سو سالہ دور حکومت میں ہندوستان کو جدید دینوی علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے روشناس کروایا۔ زمینی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انگریز نے تھوڑی سی تبدیلیوں کے ساتھ وہی نظام تعلیم ہندوستان میں رائج کیا جو تعلیمی نظام برطانیہ میں مروج تھا۔ سائنس ٹیکنالوجی سے لیکر فلسفہ، سیاسی علوم، معاشرتی علوم، اخلاقیات، منطق، تاریخ اور طب بنیادی کلاس سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک پڑھائے جانے لگے۔ بہترین اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کھولی گئیں۔ ان تعلیمی اداروں کا معیار وہی رکھنے کی کوشش کی گئی جو کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں برقرار تھا۔ انگریز کے تعلیمی نظام کا کمال ہے کہ سبھاش چندر بوس، چندر شیکھر، بھگت سنگھ اور ہیموکالانی جیسے انقلابی پیدا ہوئے اور انگریزوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ اسی مغربی تعلیمی نظام نے برصغیر کو قائداعظم محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، موتی لال اور جواہر لال نہرو، لیاقت علی خان، سر سید احمد، علامہ اقبال، رابندر ٹیگور، سوامی وویک آنندا، رادھا کرشن، اینی بیسنت، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر محمود حسین، کرشنا مورتی،ایم این رائے، علامہ آئی قاضی اور ایم این رائے جیسی ہستیاں دیں۔ انگریز برا تھا۔ مگر انگریز نے برصغیر کو بنایا تھا، سنوارا تھا ممبئی کو بمبئی بنا دیا۔ ایک گم نام بستی کو بین الاقوامی شہر بنا دیا۔
کراچی کو اس کا اپنا پرانا نام کولاچی دینا چاہئے یا کہ نہیں دینا چاہئے؟ میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میں تاریخ کے پنے پلٹنا چاہتا ہوں۔ مختصراً عرض کر رہا ہوں۔ آپ توجہ سے سنیں۔ رائے گھرانے اور برہمنوں کی حکومت کے بعد سندھ پر بنو اُمیہ نے اپنے گورنروں کے ذریعے سند ھ پر حکومت کی۔ عباسیوں نے بھی اپنےگورنروں کے ذریعے سندھ پر حکومت کی، غزنویوں نے سندھ پر حکومت کی۔ سومروں اور سموں نے سندھ پر حکومت کی ارغونوں اور ترخانوں نے سندھ پر حکومت کی۔ کلہوڑوں اور ٹالپور میروں نے سندھ پر حکومت کی۔ مگر کسی حاکم اور حکومت نے کراچی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ بلکہ کراچی کو نظرانداز کرتے رہے۔ اس بے رخی کا ایک ہی سبب تھا۔ کراچی میں پینے کا پانی نہیں تھا۔
دریائے سندھ کراچی سے چالیس میل پہلے سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس جگہ کا نام ہے کیٹی بندر۔ تب کراچی کا نام کولاچی تھا جو کہ مچھیروں کی چھوٹی سی بستی تھی۔ کولاچی کے آس پاس اِکّا دکّا میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ ان چشموں کے اردگرد مچھیرے رہتے تھے۔ ان چشموں میں سے ایک چشمہ عبداللہ شاہ غازی کے مقبرے کے عقب میں تھا۔ ہو سکتا ہے میٹھے پانی کا وہ چشمہ آج بھی وہاں موجود ہو۔ میں بدبخت ہوں۔ درگاہوں پر نہیں جاتا۔ سندھ پر بڑے بڑے جنگجو اور مہم جو حاکموں نے حکومت کی تھی۔ تب ٹھٹھہ بری اور بحری بیوپار کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہیں پر قائداعظم کا آبائی شہر جھرک آباد تھا۔ وہیں پر آغا خان اوّل کی محل نما کوٹھی تھی۔ کسی حکمراں کو کولاچی کی اہمیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ پینے کے پانی کے بغیر کسی علاقے میں بسنا اور اسے بسانا امکان سے باہر ہے۔ سندھ فتح کرنے سے پہلے انگریز نے کولاچی کی اہمیت سمجھ لی تھی۔ انگریز پہلا اور واحد حکمراں تھا جس نے کولاچی کو بسانے کا فیصلہ کیا۔ بات نکلی ہے تو بہت دور تلک جائے گی۔ کولاچی کے کراچی بننے کی کہانی میں اگلے منگل کے روز آپ کو سنائوں گا۔

تازہ ترین