• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں،ڈی جی رینجرز

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید نے کہا ہے کہ ایجنسیوں اور سیاسی جماعتوں کی ملاقاتیں معمول کا حصہ ہیں،پی ایس پی اور متحدہ 8ماہ سے مل رہی ہیں،اس میں حرج بھی نہیں ہے ،بس امن خراب نہ ہو،اگرہمارے کہنے پرایم کیو ایم پاکستان بنی توبھی ہم اب تک انکے خلاف کیسز چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں ہم لوگ کراچی کے امن کے لئے کررہے ہیں ، لیاری گینگ وار کراچی کی تاریخ کا ایک خوفناک پہلو ہے،ہماری طرف سے کراچی آپریشن کے بعد سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان سے اجتماعی اور انفرادی طور پر یہی کہا گیا ہے کہ آپ آپس میں اپنے سیاسی حالات اس پس منظر میں ضرور دیکھیں کہ جو ماضی میں کراچی میں ہوا وہ دوبارہ کسی صورت نہیں ہونا چاہئے۔بھلے یہ ضم ہوں یا الگ الگ سیاست کریں لیکن دونوں گروپس میں کسی بھی قسم کا تصادم نہیں ہونا چاہئے ۔

ڈی جی رینجرز کا مزید کہنا تھا کہ کافی سنسنی خیز بیانات نظر او رسماعت سے گزرے ہیں اور ظاہر ہے اس سے تشویش تو ہوتی ہے اور ہم جو آپریشن کررہے ہیں جس میں بالکل رینجرز کا ایک اہم رول ہے اس پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں،ساتھ ہی ساتھ تشویش زیادہ نہیں ہے اس لئے کہ جو کچھ بھی ہم کررہے ہیں ہم لوگ کراچی کے امن کے لئے کررہے ہیں ۔

ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں دونوں سیاسی جماعتوں کو جڑنا تھا جس کو انہوں نے عیاں کردیا کہ یہ سب کچھ ایک چھتری کے تحت ہوا ہے اور یہ چھتری اداروں نے فراہم کی، یہ معاہدہ کیوں ٹوٹا کون اس کا ذمہ دار ہے مصطفی کمال یا فاروق ستار ؟ جس کے جواب میں ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ اس میں کسی شخصیت کا نام لینا نہ چاہوں گا تاہم اس کا ڈائریکٹ جواب دینے سے پہلے کچھ پس منظر بیان کرنا چاہوں گا کہ کراچی آپریشن ستمبر 2013ء میں شروع ہوا تھااس سے پہلے کراچی کے حالات کیا تھے یہ ہمیں ایک مرتبہ پھر پیچھے جاکر دیکھنا چاہئے ، سی پی ایل سی کے مستند ریکارڈ میں موجود ہے کہ 2005سے 2013تک 30 ہزار انسانی جانیں ضائع ہوئیں کراچی میں صرف اس Violanceکی وجہ سے جس کی بنیاد سیاست ،لسانی کشمکش ۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی تھی اگر اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو 1987سے لے کر 1995 تک جس کا ریکارڈ مستند نہیں ہے تقریباً 22ہزار انسانی جانیں اس عرصے میں گئیں اگر ان دونوں کو اکھٹا کرلیں تو تقریباً 52 ہزار انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے کراچی کے Violanceمیں ۔

ایک بہت بڑی جنگ پاکستان کی آرمڈ فورسز ، سول ایجنسیز او رہماری قوم لڑرہی ہے پچھلے 17 سال سے جس میں 22ہزار سے کچھ زائد انسانی جانوں کا نقصان بھی ہوا ہے ۔اس سے اندازہ لگائیں کہ 22ہزار انسانی جانیں ایک اجتماعی قومی کوشش میں گئیں اور کراچی جیسے شہر میں اس سے تقریباً 250 فیصد زائد نقصان ہوا انسانی جانوں کے ضیاع کا ۔

جب ہم نے کراچی میں آپریشن شروع کیا اس وقت دن میں چھ سے 8 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات معمول تھے ، جبکہ دو کے قریب اغوا برائے تاوان کے واقعات بھی معمول کا حصہ تھے اور یہ بھی کوئی چھوٹی موٹی اماؤنٹ کے اغوا برائے تاوان کے واقعات نہیں ہوتے تھے بلکہ یہ ملین وصولی کے لئے ہوتے تھے ۔ بہت سے اداروں کا اندازہ ہے کہ تقریباً 80سے 100ملین روزانہ بھتے کی مد میں وصول کیا جایا کرتا تھا جب کہ دہشت گردی کے واقعات میں مہینے میں ایک سے دو ہو کرتے تھے ۔ ایک روز کی ہڑتال میں 15سے 20بلین روپے کا نقصان ہوتا تھا ساتھ ہی بسوں کا جلایا جانا ، پیٹرول پمپ کا جلایا جانا بھی اس ہڑتال کا حصہ ہوتا تھا جبکہ انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا تھا ۔

اب آج کے کراچی کے حالات کا جائزہ لیں تو الحمدللہ 2017 کا ڈیٹا دیکھ لیں صرف 5کیسز ہیں جو اغوا برائے تاوان کے ہیں ، اس سال میں 13پولیس اہلکاروں کے ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہیں جبکہ سیاسی بنیاد پر دو قتل ہوئے ہیں ۔

تازہ ترین