• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوورسیز پاکستانی یعنی بیرونی ملکوں میں آباد پاکستانی روز اوّل سے اپنی پاکستانی حکومتوں کے ہاتھوں عجیب سلوک کا شکار ہیں۔ غیرملکی دورے پر آنے والا ہر پاکستانی لیڈر، وزیر، وزیراعظم، صدر مملکت ان سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہی ان کو ’’پاکستان کے سفیر‘‘، ’’پاکستان کا بیش قیمت اثاثہ‘‘اور ’’پاکستان کے قابل فخر‘‘ شہری قرار دے دیتے ہیں۔ یہ پاکستانی بڑے خوش ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی ان پاکستانیوں کی بڑی واضح اکثریت سوچ اور جذبات کے لحاظ سے پاکستان کے ساتھ جڑی ہے اور پاکستان کے بدلتے حالات و واقعات پر اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ خلیج کے عرب ملکوں اور ایسے ممالک جہاں امیگریشن اور شہریت نہیں دی جاتی اور پاکستانیوں کو سالہاسال تک رہنے اور کام کرنے کے باوجود پاکستان واپس لوٹنا پڑتا ہے، ایسے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی اداروں، سفارتی مشنوں اور پاکستانی حکومت کے ہاتھوں جس سلوک اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی دردناک کہانی الگ ہے۔ اپنے پاکستانی پاسپورٹ کی تجدید، نوزائیدہ بچّوں کی پاکستانی شہریت کیلئے رجسٹریشن، پاکستان میں اپنی کسی جائیداد کے کاغذات، نادرا کے شناختی کارڈ کے حصول کیلئے ان پاکستانیوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی تفصیل ان مراحل سے گزرنے والا ہر اوورسیز پاکستانی جانتا ہے۔ مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ اور کمپیوٹرائزیشن کے باوجود غیر ممالک میں ’’پاکستان کے ان سفیروں‘‘ کو خود اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے سوتیلی ماں کا سا سلوک ملتا ہے، بعض سفارتی مشنوں کے عملے کے ساتھ تو ’’مک مکا‘‘ اور ’’نذرانے‘‘ کے دروازوں سے گزرنا پڑتا ہے تب ہی ان کی دستاویزات کے مسائل حل ہوتے ہیں۔ ہاں!بعض پاکستانی سفارتی مشنوں میں ایسا عملہ بھی ملتا ہے جو دیانتداری اور بہتر کارکردگی کے ساتھ خدمت انجام دیتا ہے مگر مجموعی تاثّر تو اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔
یہی اوورسیز پاکستانی جب اپنی کمائی سے پاکستان میں مقیم اپنے لواحقین کی کفالت اور غیر ملکوں میں اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے بعد پاکستان میں جائیداد خریدتے یا پاکستان واپسی کی صورت میں مستقبل کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں تو پھر ان کو جعلی دستاویزات، فراڈ اور قبضہ مافیا سے واسطہ پڑتا ہے جو ان کو ایک لمبے عرصے کیلئے ایک نئے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ سالہاسال کی عدالتی کارروائیاں، قبضے، دھمکیاں حتّیٰ کہ اغواء اور قتل کی وارداتوں کا سلسلہ بھی ان اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے صلے میں بہ طور ’’انعام‘‘ ملتا ہے۔ مجھے صوبۂ پنجاب میں ’’اوورسیز‘‘ پاکستانیوں کیلئے قائم کردہ صوبائی کمیشن کی اعلیٰ کارکردگی کا قابل ستائش مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے اور وہیں آنے والے اوورسیز پاکستانی سائلین کی دردناک داستانیں سننے کے بعد خلیجی اور دیگر ممالک میں مقیم پاکستانی محنت کشوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا بھی اندازہ ہوا ہے۔ چونکہ ان ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو سالہاسال کے قیام کے بعد بھی امیگریشن نہیںملتا۔ اس لئے انہیں اپنی پاکستانی شہریت اور دستاویزات پر ہی مکمل انحصار کرنا پڑتا ہے اور پھر بالآخر پاکستان ہی لوٹنا پڑتا ہے، لہٰذا ان ملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں کو پاکستانی سفارت خانوں اور پاکستانی اداروں کی نوکر شاہی کے ’’مالکانہ‘‘ رویّوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ان ’’اوورسیز‘‘ پاکستانیوں کے ساتھ ہماری اپنی حکومتی مشینری کے المناک سلوک کا صرف ایک پہلو ہے۔ غیروں کے ہاتھوں ہونے والے امتیازی سلوک کی کہانی الگ ہے۔ یہ اوورسیز پاکستانی نہ صرف غیر ممالک میں اپنی زندگی اور پاکستان میں اپنے لواحقین کی کفالت کر کے پاکستانی معیشت پر سے لاکھوں شہریوں کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کر رہے ہیں بلکہ ملک کی معیشت کیلئے ہر سال اربوں ڈالرز بھی فراہم کر رہے ہیں لیکن ہمارے حکمراں اور اپوزیشن لیڈر اپنے استقبالی ڈنرز اور حمایتی جلسوں کے اخراجات کا بوجھ بھی بیش تر ان ہی اوورسیز پاکستانیوں کے ذمہ ڈال کر انہیں تقریر میں ’’پاکستان کے سفیر اور بیش قیمت اثاثہ‘‘ کا خطاب دے کر غیرملکی دورہ مکمل کرتے ہیں مگر ان کو نہ تو ووٹ کا بنیادی حق دیا جاتا ہے نہ ہی پاکستان کے ایئرپورٹس سے ان کے ساتھ شروع ہونے والی ’’ظلم کی کہانی‘‘ اور جائیدادوں پر قبضے تک کے تلخ حقائق کا کوئی تدارک کیا جاتا ہے بلکہ بسااوقات تو غیرملک میں اپنے خرچ سے وزیر کا جلسہ اور ڈنر منعقد کرنے والے اوورسیز پاکستانی کے پاکستان پہنچنے پر متعلقہ وزیر مصروفیات کا عذر ناکر ملاقات سے بھی گریز کرتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں حقائق تو مزید تلخ ہیں۔
خود اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ثابت کر رہے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی اپنے زرمبادلہ کی ترسیلات کے ذریعے پاکستانی معیشت کا ستون بنے ہوئے ہیں۔ 2017کے مالی سال (جولائی 2016تا جون 2017ء)میں ان پاکستانیوں نے 19.3ارب ڈالر پاکستان آن دی ریکارڈ ترسیل کئے ہیں۔ 2016کے مالی سال میں 19.9ارب ڈالرز بھیجے۔ صرف دو سال کے عرصے میں 40؍ارب ڈالرز کسی مطالبے اور کسی شرط کے بغیر ان محب وطن پاکستانیوں نے اپنے آبائی وطن کو اس توقع کے ساتھ فراہم کئے کہ ان کے حکمراں اور بیوروکریٹس پاکستان میں ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داریاں اور پاکستان کی ترقی اور بہتر دیکھ بھال کی ذمہ داریاں ادا کریں مگر اس کے جواب میں اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق سے انکار کیا گیا، بلکہ جائیدادوں پر قبضہ کے علاوہ انہیں محض زرمبادلہ کما کر بھیجنے کی مشین سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ صرف ملک کی معیشت چلاتے رہیں اور بیرون پاکستان اچھے پاکستانی بن کر پاکستان کی مثبت وکالت کرنے کی ذمہ داری ادا کرتے رہیں اور بس۔ پاکستان کی منفی امیج دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے خود پاکستانی حکمراںاور اپوزیشن ہی کافی ہیں، اس کی فکر نہ کریں۔
اب آیئے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور ان ممالک میں آباد پاکستانیوں کی طرف جہاں امیگریشن کے بعد وہاں کی شہریت بھی دے دی جاتی ہے،ان ملکوں میں آباد پاکستانیوں کی واضح اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ، پروفیشنل بلکہ بعض شعبوں میں مثالی صلاحیت اور پوزیشن پر فائز پاکستانی آباد ہیں۔ ان پاکستانیوں کو امیگریشن اور پھر ان ملکوں کی شہریت مل جانے کے بعد ان پاکستانی دستاویزات اور سفارتی مشنوں کی خدمات کی وہ ضرورت نہیں رہتی جو عرب ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی زندگی کی لازمی ضرورت ہیں بلکہ اگر یہ پاکستانی آبائی وطن سے اپنا رابطہ منقطع کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اکثریت پھر بھی پاکستان سے جذباتی، معاشی، روایتی اور عملی اعتبار سے جڑی رہتی ہے۔ بلاشبہ ایسے باصلاحیت پاکستانی ہیں جو پاکستان کو نہ صرف بہتر ، مؤثر سیاسی اور معاشی نظام دے سکتے ہیں بلکہ سائنس، طب، تعمیرات، تعلیم، انڈسٹری سمیت زندگی کے شعبوں میں عصر حاضر کے جدید اصولوں پر پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں کیونکہ وہ یہی کام امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت ان جدید ملکوں میں انجام دے رہے ہیں مگر ایسے اوورسیز پاکستانی تو پاکستان میں بیٹھے فیصلہ سازوں اور کرپٹ عناصر کیلئے غیر پسندیدہ عناصر ہیں۔ انہیں تو صرف پاکستان کے گشتی سفیر، پاکستان کی امیج اور قابل فخر کہہ کر پاکستان کے بارے میں ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا ہی کافی ہے۔ ان کو ووٹ کا حق بھی دینا مناسب نہیں ہے بلکہ ان کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ کو حکومتی کارندوں کی مرضی کے مطابق بے دریغ خرچ کرنا، ان کی خریدکردہ پاکستان میں جائیدادوں پر قبضہ کرنا اور پاکستان آنے پر عام شہری سے بھی زیادہ تکلیف دہ سلوک اور ان کی جیب کے ڈالرز پر نظر رکھنا ہر کرپٹ افسر اور جرائم پیشہ افراد کا حق ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب پاکستانی صدر فاروق لغاری مرحوم 1994ء میں پی آئی اے کا پورا طیارہ پاکستانی سیاستدانوں اور دوستوں سے بھر کر اپنے صاحبزادے کی روچسٹر یونیورسٹی (نیویارک) میں گریجویشن کے موقع پر امریکہ آئے تھے تو نیویارک کے قونصلیٹ میں ایک اجتماع میں مسلم لیگی رہنما سردار ظفراللہ کے بیٹے سردار نصراللہ نے اوورسیز پاکستانیوں کے حق ووٹ کا مسئلہ اٹھایا۔ صدر لغاری سے اس موضوع پر میری گفتگو بھی رہی اور انہوں نے بھی پرزور اتفاق اور حمایت کی، بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، میاں نواز شریف، اوورسیز پاکستانیوں کے امور کے وزرائے کرام، صدر پرویز مشرف وغیرہ سے اس مسئلے پر نیویارک اور واشنگٹن کی ملاقاتوں میں ذکر اور بحث بھی رہی اور ان تمام مذکورہ حکمرانوں نے زبانی طور پر اتفاق اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کی حمایت بھی کی مگر عملاً یہ تمام حکمراںاپنی داخلی سیاست اور انتخابی حلقوں کے تابع رہے۔ پاکستان میں عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ کا اس بارے میں فیصلہ بھی آ چکا ہے مگر پاکستانی سیاستدان اور الیکشن کمیشن اپنی مصلحتوں کا شکار ہو کر اس عدالتی فیصلے کو بھی نافذ کرنے سے انکاری ہیں۔ مختصر یہ کہ اوورسیز پاکستانی ’’پاکستان کا اثاثہ اور سفیر‘‘ہیں مگر ووٹ کے حق دار نہیں۔ یاد رکھئے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ جیسے ممالک میں پاکستانی نژاد نئی نسل جوان ہو چکی ہے جو امریکی یا کینیڈین اور برطانوی سیاست کا حصّہ بن رہی ہے، اسے ان ملکوں کے ووٹ اور حقوق سے دلچسپی ہے۔ ان کا پاکستان سے رابطہ اور محبت باقی رکھنا ہے تو اس کے لئے کچھ کرنا ہو گا ورنہ انہیں پاکستانی ووٹ اور پاکستان سے دلچسپی صرف اپنے والدین اور بیک گرائونڈ تک رہ جائے گی۔ عقلمندی اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان سے جوڑ کر رکھا جائے اور غیر ممالک میں پلنے والے پاکستانیوں کو بھی عملاً پاکستان سے وابستہ رکھا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور توجّہ دی جائے۔

تازہ ترین