• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ، نااہلی کیس، عمران، ترین کے موقف میںتضاد ہے،فیصلہ محفوظ

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت سے متعلق درخواستوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ نہ امید رکھیںکہ فیصلہ کل ہی آجائیگا، عمران خان اور جہانگیر ترین کے موقف میں تضاد ہے، عدالت نے مجموعی تصویر سامنے رکھ کر دیکھنا ہے کہ کسی قسم کی کوئی بددیانتی کی گئی ہے یا نہیں؟ہم سچ کی تلاش کیلئے ہی یہ سماعتیں کررہے ہیں،سچ بولنے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو یاد نہیں رکھنا پڑتا کہ پہلے کیا کہا گیا تھا،عمران نے لندن فلیٹ ظاہر کیا گیا ہے لیکن آف شور کمپنی کبھی ظاہر نہیں کی، کاغذات نامزدگی میں تنخواہ کو نہ بتانا غلطی ہے یا غلط بیانی؟

جہانگیر ترین کے پہلے تحریری جواب اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تضاد ہے، جہانگیر ترین کے تحریری جواب پر افسوس ہوا، ریٹائرمنٹ کے بعد جہانگیر ترین اور عمران خان سے بیان حلفی پر ایک سوال ضرور کرونگا ابھی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ جسٹس عمرعطا بند یا ل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عمران خان نے اپنا یورو اکائونٹ ظاہر نہیں کیا، اثاثے چھپانے اور غلطی میں فرق ہے ،جہانگیر ترین کے موقف میں تضاد ہے، کاغذات نامزدگی میں کسی کو بینی فیشل نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی د رخواستوں کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے استفسار کیا کہ لندن ہائیڈ ہائوس کامالک کون ہے؟تو فاضل وکیل نے جواب دیا کہ شائنی ویو ہائیڈ ہائوس کی مالک ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ ہائیڈ ہائوس کی لینڈ رجسٹری کس کے نام پر ہے؟تو سکندر بشیر نے کہا کہ لینڈ رجسٹری شائنی ویوہی کے نام پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ10 مئی کوجائیداد شائنی ویوکمپنی نے خریدی تھی ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ جائیداد خریدنے کی ہدایت کس نے دی تھی؟یہ بھی بتائیں کہ یہ تمام ایونٹس کس طرح سے ہوئے تھے؟ کیاٹرسٹ کوپیسے آپ کے موکل جہانگیر ترین نے دئیے تھے ؟ فاضل وکیل نے کہا کہ جی ہاں ٹرسٹ کو پیسے جہانگیرترین نے دئیے تھے ،آف شور کمپنی کاصرف ایک شیئر ہے،یہ شیئرز ایچ ایس بی سی کے نام پرتھے، ٹرسٹ کاایچ ایس بی سی سے ای ایف جی کو ٹرسٹی بنایاگیا تھا،سیٹلر کی ہدایت پر ٹرسٹی کوتبدیل کیاگیا تھا،آف شورکمپنی کا شیئر ای ایف جی کے نیچے رکھا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ شائن ویوکمپنی کاپہلے کیانام تھااور کس کے نام تھی،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ یہ نئی کمپنی تھی، اپریل 2017میں بنائی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے رقم کس کو بھیجی تھی؟ تو سکندر بشیر نے کہا کہ انہوں نے یہ رقم آف شور کمپنی کو بھیجی تھی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ جہانگیر ترین اس طرح سے بینفشل ہیں کیا؟ سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیر ترین کمپنی کے بینفشل مالک نہیں،جہانگیر ترین نے اپنے اکائونٹ سے رقم باہر بھیجی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ شائنی ویو لمیٹڈ کے اکائونٹ کو آپریٹ کون کرتا ہے؟جس پرسکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹی کمپنی اکاوئنٹ کو آپریٹ کرتی ہے،بنک چیکوں پر نہیں لکھا ہے کہ یہ رقم آف شورکمپنی کوگئی ہے، اگرچہ چیکوں پرنہیں لکھا ہے لیکن اس پر نااہلیت نہیں ہوتی۔ انہوںنے کہا کہ جہانگیرترین نے قانونی آمدن سے رقم بھیجی تھی،میرے موقف کیخلاف کوئی مواد نہیں، میں نے عدالت میں جوکہا ہے اس پرقائم ہوں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ہوسکتاہے کہ اثاثہ آپ کاہو لیکن ظاہر نہیں کیاگیاہو،یہ ٹھیک ہے کہ پیسہ قانونی طریقے سے بھیجا گیا تھا،یہ تمام منی ٹریل جہانگیرترین نے بتائی ہے، ٹرسٹ میں جہانگیر ترین تاحیات بینفیشری ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین نے براہ راست رقم آف شورکمپنی کوبھیجی تھی، انہوںنے رقم ٹرسٹ کونہیں بھیجی تھی۔ فاضل وکیل نے کہا کہ آف شور کمپنی کے شیئرز ٹرسٹ کے تحت ہیں ،ٹرسٹ خود ایک قانونی ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین کے پہلے تحریری جواب اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تضادات ہیں،جہانگیر ترین صوابدیدی نہیں تاحیات بینفشری ہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ عدالت صوابدیدی کے لفظ کو نظر انداز نہ کرے،ٹرسٹی جہانگیر ترین کا تاحیات ہونا ختم کر سکتا ہے،ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے جہانگیر ترین نے اپنے ہاتھ کاٹ کردے دئیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیاٹرسٹ خود سے ایک قانونی ادارہ ہے ،سکندر بشیر نے کہا کہ ٹرسٹ کی کوئی انکم نہیں۔ جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں کہاں لکھاہے کہ جائیداد کوکرایہ پرنہیں دیاجاسکتا؟چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین کے تحریری جواب سے افسوس ہوا ہے ،جس پر سکندر نے کہا کہ عدالت سے غلطیوں پرمعافی مانگتا ہوں۔

جسٹس عمرعطا بند یال نے کہا کہ جہانگیرترین کے پاس اختیار ہے کہ وہ انکم کسی کودینے کی ہدایت دیں، کیاجہانگیرترین کاٹرسٹ پر کنٹرول نہیں ؟ٹرسٹ کے بینی فیشری ہونے کے ناطے اسے بھی گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھا، انہوں نے ٹیکس اتھارٹی کوٹرسٹ کابینفیشل بچوں کابتایا ہے ،جہانگیرترین کے موقف میں تضاد ہے، کاغذات نامزدگی میں کسی کوبینفشل نہیں بنایاگیاہے۔ درخواست گزار حنیف عباسی کے دوسرے وکیل عاضد نفیس نے کہا کہ جہانگیرترین کے بچے ابھی بینفیشل بنے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات بظاہردرست لگتی ہے کہ بچے ابھی ٹرسٹ کے بینفیشل نہیں ہیں۔

سکندر بشیر کے دلائل کے بعد عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ ان کے کسی جواب میں بھی کوئی تضاد نہیں، سماعت کے دوران تین ایشوز اٹھائے گئے تھے، لندن فلیٹ خریداری کاذریعہ،قیمت خریداورفروخت اور رقم کااستعمال کیاتھا، ایمنسٹی اسکیم کے بعد لندن فلیٹ ڈکلیئر کیاگیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کاکہناہے کہ لندن فلیٹ ڈکلیئر ڈکیا تھاکمپنی نہیں کی تھی ؟جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ جتنی دستاویزات اکٹھی کرسکتے تھے وہ عدالت میں پیش کی ہیں۔ حنیف عباسی کے وکیل ا کرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے عمران خان کو اپنے بیان میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی۔نعیم بخاری نے کہا کہ این ایس ایل کے اکائونٹ میں ایک لاکھ پائونڈرکھے گئے تھے ،جولائی 2007میں این ایس ایل کے اکائونٹ سے عمران خان کے اکائونٹ میں 20ہزاریورکی رقم آئی تھی، مارچ 2008میں اکائونٹ میں 22ہزاریوروکی رقم آئی تھی ،یہ رقوم 2012 میں کیش کرائی گئی تھی، انہوںنے کہا کہ درخواست گزار کے مقدمہ سے بھی ہٹ کرعدالت نے سوالات پوچھے ہیں، ہمار ی جانب سے عدالت کے سوالات پردستاو یزات لائی گئی ہیں ، اگرعمران خان نے کچھ چھپایا ہوتا تور یٹرننگ افسران کے کاغذات نامزدگی مسترد کرسکتاتھا ،عمران خان کے ریٹرن پر الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ریٹرننگ افسر نے معاملہ نہیں دیکھا تھا، کیا عدالت اب کاغذات نامزدگی کونہیں دیکھ سکتی؟

فاضل وکیل نے کہا کہ کاغذات میں اثاثے یاغلط بیانی کی بات 2002کی ہے،جبکہ 2002کی غلط بیانی پر موجودہ الیکشن پر نااہلیت مانگی گئی ہے،عمران خان سے 2002 کے آثاثے بتاتے ہوئے غلطی ہوسکتی ہے لیکن انہوں نے کوئی غلط بیانی نہیں کی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں تنخواہ کونہ بتاناغلطی ہے یاغلط بیانی؟ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اثاثے چھپانے اور غلطی میں فرق ہے ،عمران خان نے اپنا یورواکائونٹ ظاہر نہیں کیا، انہوں نے اپنا یورو اکاونٹ کب ؟اورکتنی رقم سے کھولا تھا؟جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ یہ اکائونٹ تب کھولاگیا تھاجب وہ ایم این اے تھے ،یہ اکائونٹ لندن فلیٹ کی عدالتی کارروائی کے دوران کھولاگیا تھا، یورو اکائونٹ کی رقم عمران خان پاکستان لائے تھے ،ایمانداری اوربے ایما نی میں عدالت نے فرق کرناہے۔ نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اکرم شیخ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی نعیم بخاری کی طرح مختصردلائل دیں۔

اکرم شیخ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت پاناما کیس کے فیصلے پرنظرثانی کے فیصلےکو بھی دیکھ لے، انہوںنے کہا کہ عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کہتے ہیں کہ اثاثے نہ بتاناغلطی ہوسکتی ہے،غلط بیانی نہیں، عمران خان نے جمائمہ خان کی بنی گالہ اراضی کاغذات میں بتائی ہے ،لیکن ان (جمائمہ) کے پاکستان کے باہر کے اثاثے نہیں بتائےہیں ، پاناما کیس پر نظرثانی کے فیصلے کے بعد کاغذات نامزدگی کے پیرا میٹرز سخت ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ ماضی کی غلط بیانی کا موجودہ الیکشن پرکیسے اثرپڑ سکتاہے؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی جعلی ڈگریوں کے مقدمات میں عدالت ماضی کی غلط بیانی پرکا میا ب امیدوار کا اگلا الیکشن اورانھیں عوامی عہدے کیلئے نااہل کرچکی ہے۔

تازہ ترین