• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران نے دھرنے کی روایت ڈالی ، سزا شہری بھگت رہے ہیں، تجزیہ کار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سابق اٹارنی جنرل عرفان قادرنے کہا کہ عمران خان بھی نااہل ہوگئے توآئندہ پارلیمنٹ عدالتی اصلاحات کی طرف جائے گی۔عمران ،جہانگیر ترین نااہلی کیس میں چیف جسٹس پاناما اور اقامہ کے فیصلے کو فالو نہیں کرنا چاہتے،اسی لئے انہوں نے اس کیس کے فیصلے میں وقت لگنے کا اشارہ دیا ہے۔وہ جیوکے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں عمران خان اورجہانگیرخان ترین کی نااہلی کیس میں عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوظ کرنے سے متعلق میزبان سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اسلام آباد میں دھرنے کی روایت عمران خان نے ڈالی ، مقدمات تو بنے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، احتجاج کرنا درست ہے مگر اس سے شہری یرغمال بن جائیں یہ ٹھیک نہیں ۔ شاہ زیب خانزادہ کا مزید کہنا تھا کہ آج واضح ہوگیا کہ عدالت میں عدم پیشی کی صورت میں معاملہ التوا کا شکار نہیں ہوگا بلکہ کارروائی کی جائے گی اور تیزی کے ساتھ کی جائے گی۔

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادرکا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے اقامہ کے معاملہ پر ہائی ٹیکنیکل گراؤنڈ پر ایک وزیراعظم کو نکال دیا گیا اور جو تنخواہ نہیں نکلوائی گئی اسے بے ایمانی تصور کرلیا، دنیا کے کسی قانون کے تحت اسے بے ایمانی کے زمرے میں نہیں لایا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ کے اس حد تک جانے کے بعد چیف جسٹس فی الحال اس معاملہ میں تذبذب کا شکار ہیں، چیف جسٹس اس مثال کے بہتر طریقے سے فالو کرنے کی کوشش کریں گے، آئین نے پارلیمنٹرینز کو نااہل قرار دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا ہے، قانون کے مطابق کرپشن پر احتساب کا اختیار احتساب عدالتوں کے پاس ہے۔عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پہلے یوسف رضا گیلانی، پھر نواز شریف اور اب اگر عمران خان اور جہانگیر ترین بھی نااہل ہوگئے تو پاکستان میں سیاست کدھر جائے گی،اس کے بعد ملک میں ایک ہی پارٹی پاکستان کریٹک ڈیموکریٹک پارٹی رہ جائے گی، چیف جسٹس پاکستانی سیاست کو اس طرف نہیں لے کر جائیں گے جہاں سیاست ایک مخصوص پارٹی کرے اور اس کے ساتھ چند وکلاء مل جائیں، چیف جسٹس ثاقب نثار چوہدری صاحب کی عدلیہ سے خود کو علیحدہ کرنے کی کوشش کریں گے، عمران خان بھی نااہل ہوگئے تو آئندہ پارلیمنٹ عدالتی اصلاحات کی طرف جائے گی۔

عرفان قادر نے کہا کہ پارلیمنٹرینز کی نااہلی کیلئے آئین میں فورم مقرر ہے، آئین کی حیثیت قانون اور اسٹیچو سے بہت اونچی ہوتی ہے، عدالت نے کرپشن سے متعلق معاملہ ایک اسٹیچو فورم کو معاملہ بھیج دیا تو انہیں آئینی فورم کا بھی احترام کرنا چاہئے تھا، پانچ رکنی بنچ نے آئین کی شقوں کے خلاف فیصلہ دیا ، چیف جسٹس کیلئے اس طرح کا فیصلہ دینا خاصا مشکل ہوگا کیونکہ سیاسی جماعتیں بشمول میڈیا اس وقت عدالت کو دیکھ رہے ہیں، عدالت کا کڑا امتحان ہورہا ہے اور وہ ٹرائل سے گزر رہی ہے، چیف جسٹس کی کوشش ہوگی کہ عدالت اس ٹرائل سے جلد از جلد نکلے، عمران خان نااہلی کیس کے فیصلے میں تاخیر ہوگی کیونکہ چیف جسٹس جلدبازی میں وہ فیصلہ نہیں دینا چاہتے جو تین ججوں نے دیا ہے،چیف جسٹس ممکنہ طور پر عمران خان کے موقف میں بددیانتی کے عنصر کو مسترد کرسکتے ہیں اور ساتھ ہی ممکن ہے سپریم کورٹ کی غلط jurisprudence کو فی الحال درست نہ کریں اور پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کو ڈس کریڈٹ ہونے سے بچالیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عمران خان اور نواز شریف کے معاملہ میں عدالت پبلک آفس ہولڈ کرنے والا فرق نہیں رکھ سکتی ہے، نواز شریف کو پبلک آفس ہولڈر ہونے کی وجہ سے نااہل قرار نہیں دیا گیا بلکہ اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا جسے عدالت نے بددیانتی سے تعبیر کیا، اگر عدالت نے یہاں کوئی فرق رکھا تو دونوں فیصلوں میں تضاد آئے گا، پانچ ججوں کے فیصلے کے خلاف تین جج نہیں جاسکتے، اس صورت میں چیف جسٹس لارجر بنچ بناکر دوبارہ سماعت کی طرف بھی جاسکتے ہیں، عمران خان اور جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیدیا گیا تو آئندہ دنوں میں لازمی جیوڈیشل اصلاحات آئیں گی۔عرفان قادر نے کہا کہ پاناما نظر ثانی اپیل کا فیصلہ بہت کمزور ہے،اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جس کا نظرثانی اپیل سے تعلق نہیں ہے، سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں قانون کو کم ایڈریس کیا جبکہ تشہیر کی زیادہ کوشش کی ہے، عدالت نے اس فیصلے میں ایک قسم کی اشتہار بازی کی ہے جس میں اپنی نیت کو بہت اچھا ظاہر کیا ہے اور نواز شریف کو بدنیت ظاہر کیا ہے، نواز شریف نے بھی ججوں میں بغض کا کہہ کر ان پر بدنیتی کا ٹھپہ لگادیا ہے، ن لیگ اور سپریم کورٹ کا بنچ آمنے سامنے کھڑا ہوگیا ہے۔

جیوکے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ‘‘میں میزبان نےاپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ گھڑی جس کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہے قریب آرہی ہے، اہم کیس کا اہم فیصلہ آج تقریباً چھ مہینے کی سماعت کے بعد محفوظ کرلیا گیا ہے اور اب فیصلہ سامنے آنے کا انتظار شروع ہوگیا ہے، یہ مقدمہ عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس کا ہے ، آج اس کیس کی آخری سماعت میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے وکلاء نے اپنے موکل کی جانب سے عدالت میں دی گئی غلط معلومات پر معذرت بھی کی،ججوں نے عمران خان کی جانب سے نیازی سروسز اور یورواکاؤنٹ کو ظاہر نہ کرنے پر سخت سوالات پوچھے،جہانگیر ترین کی جانب سے دی گئی ٹرسٹ ڈیڈ اور تحریری جواب میں تضاد پر بھی ججوں نے سوالات اٹھائے،ایک طرف معذرت تھی تو دوسری طرف تضادات تھے جن پر رویہ بھی سخت تھا، ریمارکس بھی سخت تھے اور سخت سوالات بھی اٹھائے گئے۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عمران خان نے کبھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھا ان کا کیس اس حساب سے تو الگ ہے مگر کیا پاناما کیس کا فیصلہ عمران خان پر اثرانداز ہوسکتا ہے کیونکہ دوسری صورت میں عمران خان اور نواز شریف کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ آج واضح ہوگیا کہ عدالت میں عدم پیشی کی صورت میں معاملہ التوا کا شکار نہیں ہوگا بلکہ کارروائی کی جائے گی اور تیزی کے ساتھ کی جائے گی، آج احتساب عدالت میں دو اہم کیسوں کی سماعت ہوئی اور دونوں ہی کیسوں میں ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے، آج احتساب عدالت میں اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت ہوئی لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔شاہزیب خانزادہ نے مزید بتایا کہ دوسری طرف حسن اور حسین نواز کے گرفتاری دینے کے عدالتی حکم کی مدت ختم ہونے کے بعد ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی تعمیلی رپورٹ بھی احتساب عدالت میں پیش کردی گئی۔ممکنہ طور پر عدالت کل حسن اور حسین نواز کوا شتہاری قرار دے سکتی ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سوال ہے کہ کیا حسن اور حسین نواز کو ممکنہ طور پر اشتہاری قرار دیئے جانے کے بعد کیا وہی ہوگا جو عمران خان کے ساتھ ہوا، عمران خان بھی چار مقدمات میں اشتہاری قرار دیئے گئے مگر ان کے مقدمات نیب کے مقدمات نہیں تھے، عجب معاملہ ہے کہ جب تک عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہورہے تھے تب بھی ن لیگ گلہ کررہی تھی، تب بھی مریم نواز ٹوئٹس کررہی تھیں اور ن لیگ کے وزراء پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں آواز اٹھارہے تھے مگر آج جب عمران خان عدالت میں پیش ہوگئے تب بھی ن لیگ مطمئن نہیں اور اعتراض کیا جارہا ہے۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان کے قابل ضمانٹ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، پھر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، پھرا نہیں مفرور قرار دیا گیا، اس کے بعد وہ اشتہاری ہوئے پھر ان کی جائیداد کی قرقی کا عمل بھی شروع ہوا، اس پورے عمل کے دوران عمران خان احتساب عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے نہ ہی انہیں گرفتار کیا گیا، عمران خان تین سال میں پہلی مرتبہ آج انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش ہوئے جہاں 2014ء کے دھرنے سے متعلق دائر ہونے والے چار مقدمات کی سماعت ہوئی۔عمران خان کو ضمانت ملنے پر مریم نواز کا سخت ردعمل سامنے آیا۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کا احتجاج واقعی پرامن تھا یا ایسا نہیں ہے، کیا واقعی یہ سارے کیسز سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے اور دھرنے میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی تھی جس کی بنیاد پر اسے پرامن دھرنا نہ قرار دیا جائے، قوم کوا ٓج بھی یاد ہے کہ اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک اسلام آباد میں کیا کچھ ہوتا رہا۔

تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکن اسلام آباد پہنچ کر پارلیمنٹ میں گھس گئے، پارلیمنٹ کے گیٹ کو ٹرک سے توڑنے کی کوشش کی گئی، کیا یہ سب کچھ پرامن کہا جائے گا۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں کے دوران حکومت اور ریاستی ادارے بے بس نظر آئے، مقدمات تو بنے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اس لئے دھرنوں کی روایت چل پڑی، کوئی مطالبہ کرنا یا احتجاج کرنا غلط نہیں،یہ جمہوری حق ہے لیکن احتجاج کہاں کیا جارہا ہے، کس نوعیت کا ہے، کیا شہریوں کو مشکلات میں مبتلا کیا جارہا ہے یہ بات بہت اہم ہے، ایسا احتجاج جس سے شہری زندگی متاثر ہو، شہر یرغمال بن جائے، قانون بے بس نظر آئے کسی بھی صورت درست نہیں ہے، عمران خان کے دھرنوں اور احتجاج کے بعد گزشتہ سال بھی مذہبی جماعتوں کے سیکڑوں کارکن راولپنڈی سے اسلام آباد کے ریڈزون میں داخل ہو کر دھرنے پر بیٹھ گئے، اس دھرنے کے بعد سوال اٹھا کہ مشتعل ہجوم کیسے اسلام آباد کے مرکز تک پہنچ گیا، گزشتہ سال تحریک انصاف نے اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی، لاک ڈاؤن کی اس کال کا سب سے سنگین پہلو یہ تھا کہ کہیں شہر بند کرنے کی یہ روایت بھی نہ چل پڑے، اب ایک بار پھر ایک ہفتے سے اسلام آباد کے ساتھ راولپنڈی بھی یرغمال بنا ہوا ہے۔

تازہ ترین