• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی حالات میں بے یقینی کی جو کیفیت پائی جا رہی ہے اس کا بہر صورت خاتمہ ہونا چاہیے۔ بعض ہنگامی واقعات حاضر لمحات میں پہاڑ جیسے دکھائی دیتے ہیں مگر ماہ و سال گزرنے کے بعد ٹبے یا ٹھیکریاں محسوس ہونے لگتے ہیں لہٰذا اصل اہمیت ہنگامی فروعات کی نہیں بنیادی اصولوں یا حقیقی ایشوز کی ہونی چاہیے۔ ہمارا حقیقی ایشو یہ ہے کہ پاکستان ایک اقلیت کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے آئینی و قانونی جدوجہد اور جمہوری پراسس کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا تھا لہٰذا اب اس کی بقا بھی آئین، قانون اور جمہوریت کی عملداری میں پنہاں ہے۔ یہاں قابلِ افسوس امر یہ ہوا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد جس طرح بانی پاکستان جلد رخصت ہو گئے اسی طرح مسند ِقیادت پر وہ لوگ براجمان ہو گئے جن کے پاس قائد کا وژن تھا اور نہ وہ شریک ِ سفر تھے۔
کسی بھی باشعور قوم کے جنگی ترانے یا جذباتی نعرے حالت ِجنگ میں گونجتے قابلِ فہم ہوتے ہیں لیکن اگر اس بخار یا جنوں کو ابداً یا مستقل شعورِ قومی پر حاوی و مسلط کر دیا جائے تو تعمیر و ترقی کا سفر کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟ بانی ٔ پاکستان کو صورتحال کی اس جوہری تبدیلی کا پورا ادراک تھا اسی لیے انہوں نے اس نئی مملکت کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ اب یہاں دو کی بجائے ایک قوم کا نظریہ جاری و ساری ہو گا۔ کسی کا کوئی بھی عقیدہ ہے وہ اس کا ذاتی معاملہ ہو گا مملکت ِ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار یا لینا دینا نہیں ہوگا۔ کسی تنگنائے میں الجھے بغیر عرض کرتے ہیں کہ کسے یہ معلوم نہیں کہ 70ء کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کیا تھا؟ آپ نے 161 سیٹیں جیتنے والے کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے 81سیٹیں لینے والے کو لا سامنے کھڑے کیا۔ ہم پوچھتے ہیں کس اصول کے تحت؟ دنیا کی کونسی جمہوریت میں یہ ہوتا ہے کہ161نشستیں جیتنے والے کو جیل بھیج دیا جائے اس کے پارٹی ورکروں کو چن چن کر موت کے گھات اتارا جائے اور ہارنے والے کو دنیا کا پہلا سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا جائے محض اس لیے کہ وہ آپ کو حمایت کی یقین دہانی کروا رہا ہے جبکہ دوسرا اپنے عوامی مینڈیٹ اور اعتماد کے بل بوتے پر وقار کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس کے بعد پوچھتے ہیں کہ ملک کیوں ٹوٹا۔ کیوں کا جواب سب کو معلوم تھا لیکن محترم حمود الرحمٰن کمیشن نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ جب سب کچھ سامنے لا کھڑا کیا تو خاکی یا سفید اسٹیبلشمنٹ نے اس کی کیا قدر افزائی کی؟
ہمارا یہ تمام تر دکھ درد اس لیے امڈ کے سامنے آرہا ہے کہ آج بھی ’’وہی حیلے ہیں پرویزی‘‘ انسان، اقوام یا ادارے وقت سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ہم پوچھتے ہیں ہمارے اداروں نے سات دہائیاں گزار کر بھی کیا یہی سیکھا ہے کہ وطنِ عزیز کے کسی بھی جہاندیدہ تجربہ کار اور پاپولر سیاستدان کو کس طرح کھڈے لائن لگانا ہے اور اپنی پسند کی پنیری کو ازسرِ نو کس طرح گملوں میں اگانا ہے۔ اس سارے مکروہ دھندے کو دیکھنے کے باوجود اگر کسی کو اس کا یقین نہیں آتا ہے تو وہ کراچی کی سیاست میں کھیلے جانے والے حالیہ کھیل کو کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کر سکتا ہے یقیناً اس میں عقل و خرد والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ہمیں جناب فاروق ستار کی مشکلات کا احساس و ادراک ہے ایک غریب یا متوسط گھرانے کے اس محنتی ورکر نے اگر لاکھوں پڑھے لکھے شہریوں کی قیادت کا منصب اپنی کارکردگی سے حاصل کیا ہے تو منصوبہ سازوں کو یہ کسی صورت ہضم نہیں ہو رہا۔ راتوں رات دبئی سے برآمدگی کرتے ہوئے ایک گروپ تشکیل دیا گیا اور پھر بندے توڑنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ ہمارے مردِ حُر کو 23مرغیوں کے ساتھ قیادت کے سنگھاسن پر بٹھانے کیلئے کیا کیا جتن کئے گئے اور پھر چالاک جانور کی طرح سارے انگور کھٹے قرار پائے۔ خدا کے بندو! اب بس کر دو سات دہائیوں تک آپ لوگوں نے کیسے کیسے برے کھیل کھیل لیے ہیں کئی کھلاڑی سیاسی میدان کے اناڑی بن کر بوڑھے ہو چکے ہیں اس امید پر کہ امپائر کی انگلی اٹھی کہ اٹھی۔ نظریہ جبر کی علمبردار کبھی آپ کی ایک چہیتی پارٹی ہوتی تھی پھر لائن لگی اور اب آپکے بچے ماشاء اللہ اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ پورے دارالحکومت کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ اس مظلوم قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دو اس کی شعوری سوچ کو اس قابل ہونے دو کہ یہ اپنے فیصلے آپ کر سکے۔ اگر یہ غلطیاں بھی کریں گے تو پھر بھی ان پر ڈھٹائی کرنے کی بجائے اُن سے سیکھیں گے اور بالآخر اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے فیصلے آپ کر سکیں۔ اسی سے وطنِ عزیز کے افق پر چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ سکتے ہیں الیکشن 2018 کے بعد تک کا منظر نامہ کھل کر قوم کی نظروں کے سامنے آسکتا ہے۔ کھلاڑی کو بھی ہمارا مشورہ ہے کہ وہ خفیہ اداروں کی دوائیوں کے ذریعے بنائے گئے اپنے مصنوعی مسل دکھانے اور قبل از وقت الیکشن کروانے کے مطالبات سے باز آ جائے۔ منتخب اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے دے 2018کوئی زیادہ دور نہیں ہے کوئی طوفان نہیں آجائے گا حوصلے سے کام لے۔ آپ کی عوامی مقبولیت کا جو پیالہ اچھل اچھل کر گرے جا رہا ہے اگلے برس اُس کا امتحان ہو جائے گا۔ ہم پوری دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ میثاق جمہوریت درحقیقت ہماری سیاسی بلوغت کا سمبل اور مظہر تھا جن دو بڑی قیادتوں نے اس پر دستخط کئے تھے ان پر اعتماد کا تقاضا تھا کہ ان ہر دو پارٹیوں سے منسلک ذمہ داران اسے نہ صرف آئین جتنا تقدس بخشتے بلکہ اس خالص جمہوری سوچ کو وسیع تر کرتے ہوئے اسے دیگر سیاسی پارٹیوں تک لے جاتے۔ بلاشبہ اس پر عملداری کے حوالے سے غلطیاں ہر دو اطراف سے ہوئیں۔ ناراض ارکان کو منانے اور شریف خاندان کے کیسز کا سامنا کرنے کی بات ہوئی ہے۔ اداروں کے آئینی حدود سے تجاوز پر مثبت اسلوب میں آواز اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ہماری نظر میں بھی ضروری ہے کہ ن لیگ جہاں گراس روٹ لیول تک اپنے کارکنان کو اعتماد میں لے بالخصوص بلدیاتی اداروں سے منسلک لوگوں کو وہیں صحافت یا میڈیا سے منسلک لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے ان سے تعلق کی بہتر استواری کرے۔ یہی متوازن پالیسی جمہوریت کی سر بلندی میں معاونت کرے گی۔

تازہ ترین