• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا طارق جمیل ڈاکٹر بنتے بنتے ایک مذہبی اسکالر بن گئے لیکن ان کا ہاتھ اب بھی لوگوں کی نبض اور دلوں پر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے مولانا طارق جمیل کو وعظ و تقریر کی ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ ان کی باتیں رگ و پہ میں اتر جاتی ہیں اور اگر ان کا وعظ سننے والا مکمل طور پر تبدیل نہیں بھی ہوتا تو اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور آتی ہے ، مولانا صاحب اپنی تقاریر میں اللہ تعالیٰ کو محض ایک سزا دینے والی ہستی کی بجائے اس کے رحمان اور رحیم ہونے کا بھی درس دیتے ہیں اور توبہ کی طرف رجوع کرکے بلکہ بار بار توبہ کے دروازے کھلے ہونے کی نوید سنا کر گنہگار سے گنہگار شخص کو اللہ کے دین کی طرف لانے کی سعی کرتے ہیں، علم و دانش سے مالا مال مولانا طارق جمیل کو یہ فن آتا ہے کہ وہ کس طرح سے لوگوں کی نفسیات کے مطابق اپنی تقاریر میں آسانی و توبہ اورمعافی کا ذکرکرتے ہیں ان کے پاس بہترین یادداشت اور معلومات کا خزانہ ہے وہ قدرت کی طرف سے انسان کی خوبصورت اور پیچیدہ تخلیق کا ذکر کرکے اس کی ذات کی بڑائی اور باریک بینی پر دسترس کابڑے اچھے انداز میں درس دیتے رہتے ہیں، وہ زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور انہیں ان معاشرتی برائیوں کا بھی علم ہے جو کسی بھی پیشے سے وابستہ افراد کے اندر ہوسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اب سرکاری ادارے بھی اپنے اہلکاروں کی اصلاح کیلئے دعوت خطاب دیتے ہیں انہیں تعلیمی ادارے بلا کر نوجوان نسل کے ذہنوں کو روشن کرنے کے لئے ان کے وعظ کو استعمال کرتے ہیں، قانون اور انصاف کے حصول کیلئے کام کرنے والے وکلاء انہیں بلاتے ہیں اور ان کے وعظ سے اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں جب یہ صحافیوں سے خطاب کرتے ہیں تو انہیں قلم کی حرمت کا اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی قدر و قیمت اور اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے یہ درس دیتے ہیں کہ معاشرے میں توازن اور بہتری کیلئے ان کا کردار کتنا اہم ہے اور ان کے لکھے ہوئے چند الفاظ محظ ایک خبر ، کالم یا اداریئے تک محدود نہیں ہوتے بلکہ وہ پوری قوم کی رائے پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے ایمانداری سے سینچے ہوئے الفاظ، فقرے اور گفتگو سے پورے ملک کو تبدیل کیاجاسکتا ہے ، وہ سرکاری اور پرائیویٹ ڈاکٹروں کو خطاب کے دوران بتاتے ہیں کہ جس طرح وہ دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اور کرسکتے ہیں اللہ کے ہاں اس کا درجہ بہت بلند ہے، وہ جائز مال کمانے کے خلاف نہیں ہیں لیکن لوگوں کے ساتھ زیادتی کرکے جھوٹ بول کر مال کمانا اپنے لئے جہنم کی آگ کمانے کے مترادف ہے ۔گفتگو کے ماہر اور سچائی سے گفتگو کرنے والے مولانا طارق جمیل چکا چوند روشنیوں اور گلیمر میں رہنے والے فنکاروں اور کھلاڑیوں کی زندگیوں میں تبدیلی کا باعث بن چکے ہیں ان میں جنید جمشید، معروف کرکٹرز سعید انور، انضمام الحق، مشتاق احمد ، ثقلین مشتاق، اور کئی دیگر نام شامل ہیں، مولانا طارق جمیل سے میڈیا انڈسٹری کے بڑے بڑے نام بھی ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ ان سے پاکستان کی معروف کاروباری شخصیات بھی ملاقات کرکے رہنمائی حاصل کرتی ہیں، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے حوالےسے بھی بتایاجاتاہے کہ وہ مولانا سے رہنمائی لیتے رہتے ہیں، گزشتہ دنوں مولانا نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ان کے رائے ونڈ کے محل میں ملاقات کی ، دوسرے روز ملاقات کے حوالے سے اخبارات میں بھی خبریں شائع ہوئیں لیکن مجھ تک یہ خبر ایک ٹی وی چینل پر چلنے والے ٹکر کے ذریعے پہنچی جس میں لکھا تھا کہ مذہبی اسکالر مولانا طارق جمیل اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے در میان ملاقات ، دونوں شخصیات نے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی، مجھے ’’باہمی دلچسپی کے امور‘‘ کے حوالے سے ایک تجسس نے گھیر لیا اور میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ باہمی امور کیا ہوسکتے ہیں ،اس صحافتی تجسس اور سوچ نے میرے اندر ’’ٹیبل اسٹوری‘‘ کے جو تانے بانے بنے وہ کچھ اس طرح سے تھے ۔مولانا صاحب نے میاں صاحب سے کہا ہوگا کہ آپ کے ہمسائے میں رائے ونڈ کا مذہبی اجتماع ہورہاہے آپ اس میں شرکت کریں اور اگر تین دن کی گشت میں بھی اپنا نام لکھوا دیں تو بہت فائدہ ہوگا، دوسرا آپ کے چہرے پر داڑھی بہت اچھی اور بھلی لگے گی ۔جس پر میاں صاحب نے کہا ہوگا جناب ان دنوں ہم گشت پر ہی ہیں کبھی پنجاب ہاؤس اسلام آباد، کبھی جاتی امرا، کبھی لندن اور کبھی سعودی عرب اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح ہمارے ساتھ ناانصافی کرتے ہوئے ہمیں نکال باہر کیا اور اگر میں داڑھی رکھ لوں تو لوگ کہیں گے کہ میں نے اقتدار کے غم میں داڑھی رکھ لی ہے اور اپنے عوام اور عالمی لیڈر شپ ایک بنیاد پرست لیڈر سمجھ کر ووٹ اور حما یت سے پہلو تہی کرنے لگیں گے، آپ اس پر ہمیں مسئلہ بتائیں کہ عوام کے مینڈیٹ کے خلاف ہمیں نکال باہر کیا، مولانا نے باہمی دلچسپی کے ان امور سے بچتے ہوئے کہا ہوگا کہ میں زیادہ قانون تو نہیں جانتا لیکن آپ کو صبر سے مدد لینا ہوگا، اگر آپ نے کچھ غلط نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا ۔’’باہمی امور کی دلچسپی‘‘ کی گفتگو کا آخری جملہ مولانا کے قہقہے پر ختم ہوا ہوگا ،جس میں میاں نواز شریف نے مولانا کو کہا ہوگا آپ مسلم لیگ(ن) میں آکر سیاست کیوں نہیں شروع کرتے؟

تازہ ترین