• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محل وقوع اور معدنی وسائل کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ایک عرصہ سے جاری بدامنی کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ برسرعام جن وجوہات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں بلوچستان کا وفاق سے مختلف معاملات پر تضاد ہے، جو زیادہ تر غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہے۔ جہاں تک بلوچوں کی محرومیوںکا تعلق ہے، اس سے مفر ممکن نہیں۔ بلوچ ایک عرصہ سے شاکی ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ صوبوں کورقبے کی بجائے آبادی کے اعتبار سے دیئے جانے کا فارمولا طے پایا تو لازم تھا ،بلوچستان ملک کے دوسرے صوبوں سےپچھڑ کر رہ جاتا اور ایسا ہی ہوا۔ حرماں نصیبی یہ رہی کہ ملک کی کسی بھی حکومت نے بلوچستان کے مسائل حل کرنے اور اسے قومی دھارے میں لانے کی مخلصانہ سعی نہ کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وطن دشمن عناصر نے بلوچوں کی محرومیوں اور وفاق سے ناراضی کو ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کاوشیں کیں اور اس ضمن میں انہیں ایجنٹ بھی میسر آگئے۔ طویل مدت سے بلوچستان بدامنی کاشکار ہے تو اس کی وجہ صوبے میں غیر ملکی دشمن ایجنسیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ خود ہمارے محافظ اداروں کی طرف سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ صوبے میں کم و بیش ڈیڑھ درجن خفیہ ایجنسیاں برسرپیکار ہیںاور بلوچوں کی علیحدگی پسند تحریکوں کی معاونت کے علاوہ سکیورٹی فورسز پر وار کرنے سے نہیں چوکتیں۔ صوبے کی صورتحال سیکورٹی اداروں کی اس بات کو سچ ثابت کرتی ہے تاہم ان ملک دشمن عناصر کی بیج کنی میں ان کی کارکردگی تشفی آمیز تو ہے، لائق تحسین تب کہلائے گی جب وہ ان عناصر کے مکمل استیصال میں کامیاب ہوں گے۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قائم مقام ایس پی انویسٹی گیشن کو ان کے اہل خانہ سمیت نشانہ بنانا اور تربت کےپہاڑی علاقے میں بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر پنجاب سے بلائے گئے 15نوجوانوں کوگولیوں سے بھون ڈالنا اس امر کاغماز ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کے لئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ دریں اثنا وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی نے باجوڑ ایجنسی میںآرمی چیک پوسٹ اور کوئٹہ میں پولیس اہلکاروں پرحملوں کی مذمت کی۔ کمیٹی نے عزم کا اظہار کیاکہ وفاقی حکومت صوبے کی معاشی و سماجی ترقی کے لئے بلوچستان حکومت کے ساتھ گہرا اشتراک ِعمل اپنائے گی، بلوچستان کے ترقیاتی وسائل میں اضافہ کیاجائے گا اور ایسا لائحہ عمل اپنایا جائےگا کہ صوبے بھرمیںترقی کے ثمرات پہنچیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے عزائم لائق ستائش ہیں لیکن ماضی پر نظر ڈالیں تو یہ عقدہ وا ہوگا کہ ایسے اقدامات کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ یوں محرومیاںبھی بڑھتی رہیں اور نفرتیں بھی۔ جن کا فائدہ ملک دشمن عناصر ایک ایسے میں وقت اٹھانےمیں کوشاں ہیں، جب سی پیک کی وجہ سے بلوچستان کو خاص اہمیت حاصل ہوچکی ہے۔ بلوچستان کی حالیہ بدامنی کو اس تناظر میں دیکھا جائے توصورتحال کا تجزیہ کرنا دشوار نہ ہوگا۔ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ حالات کنٹرول میں ہیں لیکن پھر کوئی ایساسانحہ رونما ہوجاتا ہے جوحالات کی سنگینی عیاں کردیتا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت کو اس ضمن میں فوری طور پرکوئی منظم و مربوط حکمت ِ عملی بھی وضع کرنا ہوگی کہ قومی سلامتی کےلئے بلوچستان میں قیام امن ناگزیر ہے۔ بلوچستان میں غیرملکی عناصر سے ہماری افواج کامیابی سے نبرد آزما ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری سیاسی قیادت کو بھی مفاہمت کا عمل تیز کرنا ہوگا کہ معاملات بالآخر افہام و تفہیم سے ہی حل ہوتے ہیں۔ بلوچوں کی محرومیوں اور تحفظات کو دور کئے بغیر انہیں قومی دھارے میں لانا کارِ آسان نہیں۔ اس کابہترین حل آئین کی عملداری کو یقینی بنانا ہے۔ آئین کی فصیل گر جائے تو ہی نفرتیں جنم لیا کرتی ہیں۔ ہمیں بلوچوں کی وفاق سے نفرت کی وجوہات کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا کہ اس کے بغیر معاملات درستی کی طرف نہیں آئیںگے۔ یہ کام جس قدر جلد کیاجائے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ بلوچ عوام قومی دھارے میں شامل ہو کر سی پیک سے مستفید بھی ہوں اور اس کے محافظ بھی بنیں۔

تازہ ترین