• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہلی سے آگرہ جانے والی مصروف سڑک کے دونوں طرف جگہ جگہ چائے خانے اور کھانے کے ڈھابے تھے۔ ایک ڈھابے کے اندر پردیپ کمار میرے سامنے بیٹھا آلو کا پراٹھا کھانے میں مصروف تھا۔ ’’پردیپ تمہیں پتا ہے کہ میں نے پہلی دفعہ تمہارا نام کب سنا۔‘‘ میرے سوال پر اُس کے جبڑے ہلنے بند نہیں ہوئے۔ مگر اُس نے کندھے اُچکا کر اپنی لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ ’’یہ 1964ء کی بات ہے۔‘‘ وہ نوالہ نگل کر ہنسنے لگا۔ ’’سر! میں 1984ء میں پیدا ہوا۔ آپ نے بیس سال پہلے میرا نام کیسے سُن لیا۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ ’’پردیپ! 1964ء میں ’’زندگی یا طوفان‘‘ دیکھی تھی۔ اِس فلم میں جس اداکار نے ہیرو کا رول کیا، اُس کا نام پردیپ کمار تھا۔ میرے سامنے بیٹھے پردیپ کمار کو نہ اِس فلم کا پتا تھا اور نہ اپنے ہم نام اداکار کا۔ وہ پراٹھا کھانے میں مصروف رہا۔
پردیپ کمار سے میری شناسائی صرف دو گھنٹے پرانی تھی۔ وہ نوجوان تھا، درمیانہ قد اور گٹھا ہوا جسم، رنگ تھوڑا سیاہی مائل مگر انگ انگ سے حرارت پھوٹتی تھی۔ اُس کے انداز و اطوار اور مزاج میں خوش دلی نظر آتی۔ میں اُس وقت اسلام آباد میں سیکرٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ذمہ داری نبھا رہا تھا۔ ملتان میں کپاس کی جننگ کا انسٹیٹیوٹ بنانے کا منصوبہ تیار کر رہے تھے۔ اِس سلسلے میں بھارت کے شہر ناگ پور پہنچا جہاں ایک ایسا ہی انسٹیٹیوٹ بہت عرصے سے قائم تھا۔ ایک دن انسٹیٹیوٹ میں گزارا۔ ضروری معلومات حاصل کیں اور اگلے روز صبح کی فلائٹ سے دہلی پہنچا۔ لاہور کے لئے پی آئی اے کے جہاز نے شام کو پرواز کرنا تھی۔ اتنا وقت تھا کہ میں تاج محل دیکھ آتا۔ ایئر پورٹ سے باہر ٹیکسی ڈھونڈی۔ پردیپ سے ملاقات ہوئی اور آگرہ جانے کا معاملہ منٹوں میں طے ہوگیا۔ راستے میں ہماری گفتگو جاری رہی۔ آگرہ کے قریب پہنچے تو پردیپ نے بتایا کہ اُس نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا۔ ڈھابے میں پندرہ بیس قسم کے پراٹھے دستیاب تھے۔ اُس نے بغیر کسی توقف کے اپنے لئے آلو والے پراٹھے کا انتخاب کیا۔ میں صرف چائے پیتا رہا۔ وہ کھانا ختم کر کے ہاتھ دھونے گیا تو مجھے گمان ہوا کہ وہ بل ادا کر آیا ہے۔ میں نے اعتراض کیا تو وہ خوش دلی سے مسکرایا ’’سر! ٹیکسی ڈرائیور کا ناشتہ فری ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ گاہک جو لاتا ہے۔ ڈھابے کا مالک اپنا دوست ہے۔ آپ کی چائے بھی فری میں آئی ہے۔‘‘ وہ ٹشو پیپر سے انگلیاں پونچھ رہا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ ’’پردیپ! میں مسلمان ہوں اور پاکستان سے آیا ہوں۔‘‘ اُس کے چہرے پر تھوڑی سی حیرت نظر آئی۔کہنے لگا۔’’ صاب! آپ دِکھتے تو ہمارے جیسے ہو۔‘‘ میں نے پھر کہا کہ میں پاکستان میں سرکاری ملازم ہوں۔ اُس نے اِس اطلاع کا خاص نوٹس نہیں لیا۔ یکایک اُس نے سوال پوچھا ’’صاب! آپ نے فلم کی بات کی تھی۔ کیا پاکستان میں اِدھر کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں؟‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ کچھ سوچنے لگا۔ مجھے خیال آیا کہ شاید پردیپ اِس خیال سے پریشان ہو کہ میرے ویزا میں آگرہ جانے کی اجازت ہے یا نہیں۔ یہ سوچ کر میں نے جیب سے سرکاری پاسپورٹ نکالا اور اُسے بتایا کہ میرے پاس آگرہ جانے کا باقاعدہ اجازت نامہ ہے۔ اُس نے مسکرا کر کہا ’’صاب! آپ تو یہیں کے دِکھتے ہو۔ آپ چاہے کلکتہ چلے جائو۔ آپ کو کون پوچھے گا۔‘‘ وہ دانت نکال کر خوش دلی سے مسکرایا۔ پھر اچانک اُس نے کہا ’’صاب! واپسی پر آپ کو ایک ڈھابے میں لے جائوں گا، جہاں چکن ، مٹن اور بیف بھی ملتا ہے۔‘‘ میں جواب میں مسکرا دیا۔
آگرہ پہنچے تو تاج محل دیکھنے کا ٹکٹ لینے کے لئے دو کھڑکیاں تھیں۔ ایک طرف مقامی اور دوسری طرف غیر ملکیوں کے لئے۔ پردیپ کمار نے کہا ’’صاب! ہم غیر ملکیوں کو لوٹتے ہیں۔ اُن کے لئے بیس ڈالر کا ٹکٹ ہے اور ہندوستانیوں کے لئے پچیس روپے کا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’میں تو پاکستان سے آیا ہوں۔ مجھے تو غیر ملکیوں کا ٹکٹ ہی خریدنا ہے۔‘‘ اُس نے ٹیکسی پارک کی اور کہا ’’صاب! آپ بیٹھو، میں آپ کا ٹکٹ لے کر آتا ہوں۔‘‘ میں نے اُسے ڈالر کے ساتھ کچھ انڈین روپے دیتے ہوئے کہا ’’اپنا ٹکٹ بھی خرید لینا۔ اکٹھے تاج محل دیکھیں گے۔‘‘ اُس نے لتا کے گانوں کی کیسٹ لگا کر مجھے مصروف کیا اور خود ٹکٹ لینے چلا گیا۔ تاج محل کے اندر جانے اور دیکھنے کے دوران وہ دھکم پیل کر کے میرے لئے راستہ بناتا رہا۔ جب ہم واپس دہلی جا رہے تھے تو اُس نے ٹکٹ خریدنے کے لیے میرے دیئے ہوئے ڈالر واپس کر دیئے۔ میں حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مسکرایا اور پھر بولا ’’صاب! آپ تو ہمارے جیسے دِکھتے ہو۔ میں نے آپ کو بتائے بغیر آپ کے لئے بھی انڈین ٹکٹ ہی خریدا تھا۔‘‘ ’’اگر ہم پکڑے جاتے؟‘‘ میں نے اپنے خوف کا اظہار کیا۔ وہ ہنسنے لگا ’’صاب! آپ کے ماتھے پر تو نہیں لکھا کہ آپ پاکستان سے آئے ہو۔‘‘
یہ 2007ء کا ذکر ہے۔ پچھلے دس سال میں ہندوستان میں آنے والی تبدیلیوں پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ انگریز نے ہندوستان کی جمہوری قیادت مصنوعی طریقے سے تیار کی تھی۔ گاندھی ہو یا نہرو، جناح ہو یا اقبال، لیاقت علی خان ہو یا فیروز خان نون، سب انگلستان کے لبرل ماحول کے تعلیم یافتہ تھے۔ آزاد خیالی اور مذہبی رواداری اُن کی سوچ کا حصہ تھی۔ جن رہنمائوں کا روزگار مذہب سے وابستہ تھا اُنہیں عوامی حمایت نہ ملی۔ البتہ علامہ اقبال سے لے کر قائدِ اعظم تک اُن کے فتووں کی زد پر رہے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی لبرل قیادت نے مذہبی منافرت، تنگ دلی اور انتہا پسند رویے پروان نہ چڑھنے دیئے۔ ایک اہم واقعہ سوچ کے تفاوت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُن دنوں ہندوستان کی بندرگاہوں پر پروہت، پجاری سمندر پار سے آنے والوں کو مذہبی غسل دے کر دوبارہ پاک، پوِتّر کیا کرتے تھے۔ برہمنوں کے لئے خاص طور پر یہ لازم سمجھا جاتا تھا۔ جب موتی لال نہرو انگلستان کے سفر سے ہندوستان واپس آئے تو اُنہوں نے مقدس اشنان کے عمل کو فرسودہ اور غیر ضروری رسم قرار دیا۔ اِسی روشن خیال قیادت کا کمال تھا کہ آر ایس ایس اور دوسری مذہبی انتہا پسند تحریکوں کے باوجود ہندوستان کو ایک سیکولر آئین ملا۔
آزادی کے بعد پاکستان کو وسائل کی تقسیم میں پورا حصہ نہ ملا تو گاندھی نے بھوک ہڑتال کر دی۔ انتہا پسند ہندو ناراض ہوئے۔ ہندو مہاسبھا کے رُکن، جو پہلے آر ایس ایس کا رُکن رہ چکا تھا، گوڈسے نے ’’مسلمان دوستی‘‘ پر گاندھی کو گولی مار دی۔ پاکستان میں قومی سوگ کا اعلان ہوا اور ہمارا جھنڈا سرنگوں کر دیا گیا۔ یہ خدشہ ہمیشہ سے موجود تھا کہ انگریز کے زمانے کی قیادت کی جگہ نئے لوگ آئیں گے تو مذہب کے نام پر سیاست کی سمت تبدیل ہو جائے گی۔ سوچ کے ان دُھندلکوں میں مجھے پردیپ کمار کی شکل یاد آ رہی ہے۔ ایک عام ہندوستانی جس کا ذہن تعصب سے بالاتر تھا۔ یقین نہیں کہ آج میں ہندوستان جائوں تو پردیپ مجھے اُس ڈھابے پر لے جانے کی پیشکش کرے گا جہاں کھانے کے لئے بیف ملتا ہو۔ مجھے یہ بھی یقین نہیں کہ وہ خوش دلی سے مسکرا کر کہے گا ’’صاب! آپ اور ہم میں کیا فرق ہے۔ آپ تو ہمارے جیسے ہی دِکھتے ہو۔‘‘

تازہ ترین