• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں رائے ایک بار پھر عام ہے کہ پتہ نہیں ملک کے کچھ طاقتور حلقوں کو نہ سندھ کی خوشحالی اور نہ ہی سندھ کا اتحاد اور یکجہتی پسند ہے۔ سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انگریز سامراج کے برصغیر پر قبضہ کرنے سے پہلے سندھ ہمیشہ سے ایک آزاد اور خودمختار ملک رہا ہے جس کی سرحدیں کبھی ملتان تک تو کبھی کشمیر تک بھی رہی ہیں۔ مگر برصغیر سے انگریز سامراج کی واپسی کے وقت سندھی برصغیر کے ان علاقوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے مسلمانوں کے الگ ملک پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے حق میں سب سے پہلے قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کی اور جو سندھ کے ممتاز سیاست دان جناب جی ایم سید نے پیش کی تھی۔ مگر جب سندھ کی صوبائی خودمختاری پر ہاتھ ڈالا گیا تو اس کیخلاف سندھ میں احتجاج کرنیوالے سیاستدانوں میں جی ایم سید سب سے آگے تھے، جس پر انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد سندھ کے ساتھ جو ہوا وہ سب کچھ سندھ کے ہر باشندے کے سینے پر لکھا ہوا ہے سندھ کے ساتھ وارداتیں تو بہت سی ہوئیں۔ اگر مختصر طور پر ان وارداتوں کا ذکر کیا جائے تو پہلے مرحلے میں فی الحال ون یونٹ کا ذکر ہی کافی ہوگا۔ ون یونٹ کے نتیجے میں سندھ کی خودمختاری ختم ہوگئی جو ایک لحاظ سے سندھ لفظ کے استعمال پر ہی پابندی تھی۔ ہوسکتا ہے شاید سندھ یہ سوال اٹھائے کہ ون یونٹ کے دوران سندھ کے جن وسائل پر قبضہ کیا گیا یا ان کو کسی اور جگہ منتقل کیا گیا، اس کا حساب دیا جائے۔ سندھ ابھی ون یونٹ کے ذریعے لگائے زخموں کا درد ہی محسوس کررہا تھا کہ سندھ کے اندر نسلی سیاست کو جنم دیا گیا۔ اس سیاست کے ذریعے نہ صرف سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کی گئی بلکہ خاص طور پر سندھ کےدو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں رہنے والوں کو خون میں نہلایا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں میں رہنے والی کمیونٹی کی کتنی بے گناہ جانیں لی گئیں اور خواتین کی بے حرمتی بھی کی گئی۔ اس صورتحال سے سندھ کے ان علاقوںکو نجات دلانے کیلئے سندھ کے کچھ محب وطن، سمجھدار دانشوروں کو احساس ہوا کہ سندھ کی خاص طور پر دو بڑی کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکر کھڑے کرنے والی سازش کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ لہٰذا ان دو کمیونٹیز کے کئی دانشور سر جوڑ کر بیٹھے اور ساری صورتحال کا مشترکہ طور پر جائزہ لیکر دونوں کمیونٹیز کے درمیان پیدا کی جانے والی ان نفرتوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی ایک متحدہ فارمولا تیار کرنے میں مصروف ہوگئے۔ یہ مذاکرات پی ایم اے ہائوس کراچی میں ہوئے، ان مذاکرات میں اردو بولنے والے دانشوروں کی قیادت جناب پروفیسر کرار حسین، جناب منہاج برنا، ڈاکٹر رحمٰن علی ہاشمی، ڈاکٹر ہارون احمد، ایم ایچ عسکری، ایم بی نقوی اور دیگر دانشوروں نے کی جبکہ سندھی دانشوروں کی قیادت سندھ کے ممتاز دانشور جناب محمد ابراہیم جویو، جو 112 سال کی عمر میں ایک ہفتہ قبل انتقال کرگئے ہیں۔ کے ساتھ جن دیگر سندھی دانشوروں نے مذاکرات میں حصہ لیا۔ ان میں نورالہدیٰ  شاہ، پروفیسر عمرمیمن، یوسف لغاری، جام ساقی وغیرہ شامل تھے۔میرا خیال ہے کہ یہ مذاکرات انتہائی تفصیل سے کافی عرصے تک جاری رہے۔ بہرحال، آخر میں ان دانشوروں نے ایک ڈرافٹ پر اتفاق کرلیا جو تین زبانوں اردو، سندھی اور انگریزی میں لکھا گیا اور اس ڈرافٹ کا عنوان تھا ’’سندھ میں امن و ہم آہنگی کا اعلان نامہ‘‘۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی ریکارڈ پر لانا مناسب ہوگا کہ اس کا اہتمام ’’فورم آف پروفیشنل آرگنائزیشن‘‘ کی طرف سے کیا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ ’’سندھ میں بسنے والی مختلف آبادیوں خاص طور پر اردو اور سندھی بولنے والے سندھیوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارا پیدا کیا جائے اورصوبے کےاصل بنیادی مسائل پر غور و خوض کیلئے اپنا مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کیا، مسلسل محنت اور غور و فکر کے بعد یہ اعلان نامہ جاری ہوا۔ اس اعلان نامہ پر سندھی اور اردو بولنے والے دانشوروں اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے دستخط کئے۔ فی الحال، ان سب کے نام اس کالم میں شائع کرنا تو ممکن نہیں، مگر اوپر ذکر کئے گئے ناموں کے علاوہ کچھ دیگر سندھی اور اردو بولنے والے دانشوروں کے نام میں یہاں دے رہا ہوں جن میں خاص طور پر علی امام، ہارون احمد، زاہدہ حنا، سلیم عاصمی، ڈاکٹر محمد سرور، حسن عابدی، الطاف آزاد، شیما کرمانی، ظفر عباس، مظہر عباس، قاضی ابرار، بیگم آمنہ مجید ملک، پروفیسر اقبال احمد خان، ایس پی لودھی، ڈاکٹر منظور احمد،توصیف احمد خان، عثمان بلوچ، کرامت علی، قیصر بنگالی، بصیر نوید، مسز انیس ہارون، شمشیرالحیدری، واجد شمس الحسن، جاوید بخاری، ڈاکٹر ذکی حسن، بی ایم کٹی، عزیز فاطمہ، حمزہ واحد بشیر، تاج جویو، زیب سندھی، خادم حسین شاہ، انیس میمن، جمال نقوی، منظور سولنگی، شبنم گل اور دیگر۔ اس انتہائی اہم اعلان نامےکے کئی اہم نکات ہیں۔ مگر فی الحال، میں اس اعلان نامے کے صرف آخری پیراگراف سے چند نکات یہاں پیش کررہا ہوں جو اس طرح ہیں ’’ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سندھ کے عوام کے درمیان رنجشیں کافی عرصےسے چلی آرہی ہیں لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ انہیں کم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ فرقہ وارانہ طاقتیں تفریق پر بنتی ہیں۔ انہیں چیلنج کرنا، ان کا راستہ روکنا اور انہیں شکست دینا آج کی ضرورت ہے۔ ہم وہ باشعور لوگ ہیں جو اپنے اختلافات بھلاکر قومی سیاست کے ذریعے ایک قومی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرسکتے ہیں، یہ کوششیں ہمیں اور بھی کرنی چاہئیں۔ وہ انسانی اقدار جن کی ہم قسم کھاتے ہیں اور تمام ثقافتی ورثہ، یہ زمین اور یہ مٹی جس سے ہم جڑے ہوئے ہیں وہ ہم میں یگانگت پیدا کرے گی اور باہمی اعتماد کو تقویت بخشے گی جو سماج میں خوشگوار اور پرامن زندگی کی واحد بنیاد ہے۔ آیئے پاکستان میں ایسی ہی پرامن زندگی کی ابتدا سندھ سے کریں کیونکہ یہ وہ سرزمین ہے جہاں اس وقت اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ہماری مخلصانہ کوشش ہے کہ ہمارے تمام بچوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے قابلیت کی بنیاد پر تعلیم کی سہولت اور پھلنے پھولنے کے مواقع میسر ہوں، ہمارے بچے سندھی اور اردو آزادی سےسیکھ سکیں اور یہ ان سب کی عام زبانیں  بن جائیں اور بتدریج انہیں دفتروں اور صوبے میں ان کا جائز تاریخی مقام مل جائے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاںان معاملات پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور منصفانہ اور حقیقی حل تلاش کریںجو سب کیلئے قابل قبول ہو۔ اس وقت میں نے اس اعلان نامے کا ذکر اس وجہ سے چھیڑا ہے کہ ایک بار پھر سندھ میں اسی نوعیت کی تفرقہ بازی اور ماضی جیسی صورتحال ہے۔ اس سے پہلے کہ حالات سب کے ہاتھ سے نکل جائیں، کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ سندھی اور اردو بولنے والے دانشور جو سندھ کی یکجہتی اور سندھ میں مکمل امن آشتی پر یقین رکھتے ہیں، ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں..... نئی صورتحال کے پیش نظر ایسا ایک اور اعلان نامہ تیار کرکے اس کو عملی جامہ پہنایا جائے، نہیں تو کم سے کم اسی اعلان نامے میں کچھ ضروری ترامیم کرکے اسی اعلان نامے کو سندھ کی ساری کمیونٹیز کے سامنے رکھا جائے۔ آیئے خود کو، سندھ کو اور پاکستان کو کسی نقصان سے بچائیں۔

تازہ ترین