• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوجرانوالہ چھوٹا سا قصبہ تھا، کل آبادی بیس ہزار سے کچھ اوپر تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے بورڈ پر ’گوجرانوالہ ٹاؤن‘لکھا تھا۔ کیا غضب ہے کہ قصبے دیکھتے ہی دیکھتے شہر بن جاتے ہیں۔ شہر میں کوئی تفریح گاہ نہیں تھی۔ بھائی سخاوت علی اور میں ٹہلتے ٹہلتے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پہنچ جاتے تھے۔ مسافروں کی رونق، ملی جلی یونیفارم پہنے ہوئے اہلکاروں کی بھاگ دوڑ، ایک گاڑی کہیں پیچھے رک جاتی تھی، سگنل کے ڈاؤن ہونے کی افواہیں، ریل کی سیٹیاں اور پھر… شام کے سایوں میں تیزی سے خالی ہوتا ہوا ریلوے اسٹیشن۔ ’بابو ٹرین‘ ایک مانوس نام تھا۔ لاہور سیکرٹریٹ، ریلوے ہیڈ کوارٹر اور دوسرے سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے ملازم بابو ٹرین کی پہچان تھے۔ پو پھٹے یہ ٹرین سیالکوٹ سے چلتی اور وزیر آباد، گوجرانوالہ سے ہوتی ہوئی لاہور پہنچ جاتی تھی۔ اس ٹرین میں ہر روز سفر کرنے والوں کی باہم جان پہچان، تاش کی منڈلیوں اور گپ شپ کی ٹولیوں میں ڈھل جاتی تھی۔ دن ڈھلے یہی ٹرین لاہور سے رزق ڈھونڈنے والے پرندوں کو سمیٹ کر سیالکوٹ کی طرف چلی جاتی تھی۔ گوجرانوالہ کا یہ ریلوے اسٹیشن اب متروک کر دیا گیا ہے۔ کچھ برس پہلے یہاں پلیٹ فارم پر ایک مسجد بنا دی گئی تھی۔ اب مسجد کے جھگڑے نے اس کہنہ عمارت کو بے آباد شمشان گھاٹ بنا رکھا ہے۔ بابو ٹرین، ایک مدت ہوئی، رفت گزشت ہو گئی تھی۔
ہمارے ادب میں ریلوے کی داستان ایک صدی پرانی ہے۔ شوکت تھانوی نے ’سودیشی ریل‘لکھی تھی۔ رضا علی عابدی کی ’ریل کہانی‘ تو اردو ادب میں کلاسیک بن چکی۔ انتظار حسین نے میرٹھ کے قصے سناتے سناتے ایک جملہ مزے کا لکھ دیا۔ ’رات کے اندھیرے میں ریل گاڑی دور سے یوں نظر آتی تھی جیسے کوئی چراغوں کی قطار کو رسی سے باندھ کے کھینچ رہا ہو‘۔ جوش ملیح آبادی نے رومانوی طبع پائی تھی۔ گاڑی نکل چکی تھی، پٹری چمک رہی تھی،یہاں گاڑی کا گزرنا فراق گورکھ پوری، جگر مراد آبادی اور خود جوش صاحب کے رخصت ہونے کااستعارہ ہے۔ کیا قافلہ جاتا ہے، تو بھی جو چلا چاہے… منیر نیازی کی سانس میں رومان کی گٹکری تھی۔
ریل کی سیٹی میں درد ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر پہنچے تو اندازہ ہوا
اور یہ شعر دیکھئے۔
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
محمد حسن معراج نے پچھلے دنوں ’ریل کی سیٹی‘لکھی ہے۔ کتاب کیا ہے، چہروں اور جگہوں کا مرقع ہے۔ مانی اور بہزاد کی تصویر کشی ہے۔ ان دنوں قاضی فضل الرحمن کی کتاب ’روداد ریل کی‘چھپ کر آئی ہے۔ قاضی صاحب کی معلومات نایاب ہیں اور قلم کا لہجہ ثقہ ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ بدانتظامی، نااہلی اور حادثات کے کارن ریلوے ہماری اجتماعی تصویر کا عضو معطل بن چکی تھی اور اب حسن معراج اور قاضی فضل الرحمن جیسے ژرف نگاہ اس ریل کے قصے پھر سے زندہ کر رہے ہیں۔
ہماری ریلوے پر کوئی چالیس برس ایسے گزرے کہ جیسے رسی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا۔ آدھی صدی قبل ہمیں بتایا گیا کہ ریلوے کے ایک وزیر ریل کا انجن بیچ کر کھیل مرونڈا کھا گئے۔ پھر لنگر گپ سنائی گئی کہ ریل کی ہزاروں میل پٹری لاہور کی کسی بھٹی میں پگھلا دی گئی۔ کسے فرصت کہ بھوسے کے ڈھیر سے گندم کے دانے الگ کرے۔ یہ البتہ ہم سب نے دیکھا کہ مال گاڑی کا لال ڈبہ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں اس قدر تاخیر ہوئی کہ لوگوں نے سفر کے لئے ریلوے کا آسرا ہی چھوڑ دیا۔ ریلوے کے ایک وزیر کہا کرتے تھے کہ ’افغانستان اور سعودی عرب میں تو سرے سے ریلوے ہی نہیں، وہ ملک بھی تو چل رہے ہیں‘۔ یہ وزیر صاحب سچ کہتے تھے، ان کی وزارت کی گاڑی تو اس الوپ انجن سے بندھی تھی جو راولپنڈی سے دھواں چھوڑتا نکلا اور منزلیں مارتا بحیرہ عرب پار کر گیا۔ کچھ لوگ مگر پاکستان کی زمیں سے بندھے ہیں۔ انہیں ہماری گلیوں میں رونق، ہمارے شہریوں کے احترام اور ہمارے مسافروں کے آرام کی فکر رہتی ہے۔
آمریت کچھ ایسا فوق الفطرت بحران نہیں۔ یہ عذاب مختلف ادوار میں بہت سی قوموں پر اترا ہے۔ جمہوریت تو بمشکل سو برس کا قصہ ہے۔ انصاف کی لڑائی بہت پرانی ہے۔ جبروت کے اہلکار ہر دربار میں پہلو بدل بدل کے اپنے آقائے ولی نعمت کی برکتیں بیان کرتے ہیں۔ 1922ء میں اٹلی پر مسولینی نازل ہوا تو اس کے حواریوں کو اپنے ڈوچے کی شان بیان کرنا تھی۔ کیا یہ بتاتے کہ مسولینی چھوٹے قد کا ناکام ادیب اور دوسرے درجے کا صحافی ہے؟ جرائم پیشہ لوگوں کے جتھے منظم کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، اپنے مخالفین کے لئےموت کے فرمان جاری کرتا ہے۔ مسولینی کے حاشیہ برداروں نے دلیل گھڑی کہ ڈوچے کی انتظامی اہلیت اور شخصی عظمت کے طفیل اٹلی میں ٹرینیں وقت پر آتی ہیں۔ کامریڈ اسٹالن کے نقارچی لکھا کرتے تھے کہ عظیم رہنما اسٹالن کی سائنسی مہارت کے کارن سوویت یونین میں کدو کا سائز بڑا ہو گیا ہے۔ چیئرمین ماؤ کے چین میں ریڈ بک پڑھنے والی مرغیاں بڑے سائز کے انڈے دیتی تھیں۔ پرویز مشرف کے عذر خواہ کہا کرتے تھے کہ روشن خیال آمر نے قوم کا احترام بحال کر دیا ہے۔ گویا قوم کا احترام کفش کاری کے انتظار میں تھا۔ ٹرینوں کے نظام اوقات سے آگے کی کہانی ہے۔ جمہوریت قوم کی وسیع تر تصویر دیکھتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق لاہور کی گلیوں میں پلے بڑھے ہیں۔ گرم جوشی اور آتش بیانی کی حدیں اکثر خلط ملط ہو جاتی ہیں۔ سعد رفیق کو ریلوے کا قلمدان سنبھالے ساڑھے چار برس ہوئے ہیں۔ ٹرینوں کی آمدورفت میں ٹائم ٹیبل کی پابندی کا احوال کسی مسافر سے پوچھئے گا۔ صرف یہ جان لیجئے کہ 2013ء میں ریلوے کی کل آمدنی 18 ارب روپے تھی جو اب چالیس ارب روپے سے بڑھ چکی ہے۔ 2013ء میں مال گاڑیوں کی کل سالانہ تعداد 182 تھی، اب 3318 مال گاڑیاں ریلوے ٹریک پر دوڑتی ہیں۔ کیا خواجہ سعد رفیق کے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ آ گیا ہے؟ خواجہ سعد رفیق نے قوم کی خوشحالی اور جمہوری بندوبست میں تعلق سمجھ لیا ہے۔ دو روز قبل ایک ریٹائرڈ بزرجمہر فرمارہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ واپڈا چلا سکتی ہے، بھل صفائی کر سکتی ہے تو ملک بھی چلا سکتی ہے۔ انہوں نے شاید کبھی آئین کی شق 245 نہیں پڑھی۔ داخلہ کے وزیر مملکت طلال چوہدری نے جواب میں صرف یہ کہا کہ پاکستان کے سیاست دان کی سب سے بڑی دلیل قائد اعظم کی قیادت ہے۔ قائد اعظم سے زیادہ دیانت دار اور اہل رہنما کسی اور شعبے نے پیدا کیا ہو تو اس کا نام بتایا جائے۔ مت سہل ہمیں جانو… ریلوے کا وزیر سعد رفیق اب پچاس برس کی عمر کو پہنچا ہے۔
فیصل آباد سے آنے والا طلال چوہدری تو ان سے بھی کم عمر ہے۔ قائد اعظم کی قیادت کا احسان ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری اور سیاسی ذہن کی پیداوار ختم نہیں ہوتی۔ پنجابی زبان کی ایک بولی دیکھئے
گڈی آوندی اے چک جھمرے
کسے میرا ماہی ویکھیا، ہتھ ریڈیو تے وال کنڈلے
(گاڑی چک جھمرے کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ چکی ہے، کسی نے میرا محبوب گاڑی سے اترتے دیکھا ہو تو خبر دے۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ بال گھنگھریالے ہیں اور ہاتھ میں ریڈیو پکڑے ہوتا ہے)۔ ہماری جمہوریت کی گاڑی کے چک جھمرہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے کا نشان یہ ہے کہ بابو ٹرین اب ٹھیک صبح پونے چار بجے سیالکوٹ سے چلتی ہے اور سات بج کے دس منٹ پر لاہور پہنچ جاتی ہے۔ شام کو چار بج کے چالیس منٹ پر لاہور سے روانہ ہوتی ہے اور آٹھ بج کے دس منٹ پر سیالکوٹ پہنچ جاتی ہے۔ جمہوری مسافروں کے بال گھنگھریالے ہیں نیز یہ کہ ان کے باپ جمہوریت کی لڑائی لڑتے ہوئے لاہور کی مال روڈ پر مارے گئے۔

تازہ ترین