• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بغیر تحقیقات داور کنڈی کو پارٹی سے نکال دینا سوالات اٹھارہا ہے

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بات چیت سے دھرنا ختم کرانے کی کوشش کی مگر بے سود رہی، عدالتی حکم آیا اسلام آباد دھرنا ختم کرو مگر مظاہرین نہیں مانے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے حکم کی نافرمانی پر نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو کہہ دیا کہ دھرنا ہر صورت میں چوبیس گھنٹوں کے اندر ختم کروائو پھر بھی مظاہرین فیض آباد انٹرچینج سے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں، دھرنا مظاہرین اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں، حکومت کا صبر جواب دے رہا ہے لیکن پھر بھی حکومت طاقت کے استعمال سے بچنے کیلئے دھرنا مظاہرین کو بات چیت کی ایک اور پیشکش کررہی ہے، وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی کہہ دیا تمام تحفظات دور کردیئے اس لئے اب دھرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کو حکم دیا کہ کل صبح تک پرامن طریقے سے یا بزورطاقت ہر صورت دھرنا ختم کرایا جائے اور اس کیلئے انتظامیہ ایف سی اور رینجرز کی مدد بھی لے سکتی ہے، اب دیکھنا ہے دھرنا مظاہرین کی طرف سے کیا جواب آتا ہے،بات چیت کی حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دیا جائے گا یا دھرنے کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکومت کو بالآخر طاقت کا ہی استعمال کرنا پڑے گا، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عدالتی حکم کی پاسداری کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کروائے، حکومت کے رویے سے بھی لگ رہا ہے کہ اس کا صبر اب جواب دے رہا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، 27اکتوبر کو بھائی کی مبینہ غلطی کی سزا اس کی بہن کو دی گئی، اسے برہنہ کر کے گلیوں میں گھمایا گیا، نو ملزمان میں سے آٹھ کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ مرکزی ملزم ابھی تک قانون کی گرفت سے آزاد ہے، اس واقعہ نے پورے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا، سیاسی اور مذہبی قیادت نے اس واقعہ کی مذمت کی، ملزمان کی گرفتاری اور انہیں انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن ہر معاملہ پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنے والے عمران خان نے اس واقعہ کی مذمت نہیں کی۔

ٹوئٹر پر ہر بات پر اپنا کمنٹ دینے والے عمران خان نے کچھ نہیں لکھا، ان کی ٹائم لائن پر ایسی کوئی ٹوئٹ موجود نہیں، مکمل طور پر خاموشی ہے کہ اتنے بھیانک واقعہ پر عمران خان خاموش ہیں، البتہ اس واقعہ کا ایک اور سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ہی رکن قومی اسمبلی داور خان کنڈی نے پی ٹی آئی کے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی علی امین گنڈاپور پر ڈیرہ اسماعیل خان واقعہ میں ملوث ملزمان کی سرپرستی کا الزام لگایا، یہ بہت سنگین الزام ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئے تھی مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں علی امین گنڈاپور پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے اور ساتھ ہی کہا کہ انہوں نے کرپشن کے ثبوت خود عمران خان کو دیئے تھے، ہونا یہ چاہئے تھا کہ داور کنڈی کے علی امین گنڈاپور پر الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہوتیں مگر ایسا نہیں ہوا، ظاہر ہے داور کنڈی کا الزام لگانا کسی طور پر علی امین گنڈاپور کو اس واقعہ میں ملوث نہیں کردیتا مگر تحقیقات کا نہ ہونا، عمران خان کا خاموش ہونا اور بغیر تحقیقات ہوئے داور کنڈی کو پارٹی سے نکال دینا سوالات اٹھارہا ہے، عمران خان نے داور کنڈی کو ہی جھوٹا قرار دے کر پارٹی سے نکالنے کا اعلان کردیا۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ داوری کنڈی کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئے تھی، ان کے الزامات کسی طور بھی علی امین گنڈاپور کے خلاف ثبوت نہیں ہیں مگر عمران خان نے آئی جی پولیس کی رپورٹ پر داور کنڈی کو جھوٹا قرار دیدیا حالانکہ داور کنڈی نے پولیس پر بھی ملزمان کی سرپرستی کا الزام لگایا تھا، اس واقعہ میں باقاعدہ طور پرپولیس پر الزام لگتے رہے ہیں اور انہی کے سربراہ سے پوچھ کر داور کنڈی کو پارٹی سے نکال دیا اس لئے اس معاملہ میں پولیس خود ایک فریق ہے، کیا پولیس کی رپورٹ علی امین گنڈاپور کی بے گناہی اور داور کنڈی کو جھوٹا قرار دینے کے لئے کافی ہے، جب بھی کسی دوسری پارٹی یا دوسرے شخص کا معاملہ ہو تو عمران خان خود کہتے رہے ہیں کہ غیرجانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئیں، اس معاملہ میں پولیس اور حکومت کے ایک وزیر پر الزام ہے لیکن عمران خان نے آئی جی پولیس سے ہی بات کر کے داور کنڈی کو نکال دیا۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ داور کنڈی کے پاس ثبوت کیا ہیں کیونکہ داور کنڈی نے سلیم صافی کے پروگرام میں علی امین گنڈاپور کو چیلنج کیا تھا کہ آپ متاثرہ لڑکی کے گھر جاکر اس کے سر پر ہاتھ رکھیں تو علی امین گنڈاپورا ن کے گھر چلے گئے تھے۔پروگرام میں شاہزیب خانزادہ نے داورخان کنڈی سے گفتگو بھی کی۔شاہزیب خانزادہ: داور کنڈی صاحب آپ کو پارٹی سے نکال دیا ہے، آپ اس سے پہلے بھی الزامات لگاتے رہے ہیں اور عمران خان یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ کی عادت ہے آپ بار بار الزامات لگاتے ہیں، کیا آپ کا واقعی علی امین گنڈاپور سے ذاتی معاملہ ہے، ذاتی اختلاف ہے، آپ پہلے کرپشن کے الزامات بھی لگاچکے ہیں اور اب اس واقعہ پر جس میں ایک معصوم لڑکی کے ساتھ یہ واقعہ ہوا آپ اپنے سیاسی فائدہ کے لئے استعمال کرتے ہوئے ان پر الزام لگارہے تھے اس لئے پارٹی سے نکال دیا آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھے؟

داور خان کنڈی: عمران خان کی ویڈیو دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، عمران خان مجھے بغیر تحقیق کے جھوٹا قرار نہیں دے سکتے، وہ میری پارٹی کے چیئرمین ضرور ہیں لیکن اس طرح کے الفاظ میں برداشت نہیں کرسکتا کیونکہ میں اپنی ایک اتھارٹی رکھتا ہوں، میرا ایک اسٹیٹس ہے، میں الیکشن لڑ کر آتا ہوں پہلی دفعہ الیکشن نہیں لڑا، میں نے الزام نہیں لگائے حقائق بتائے ہیں، میں نے جب علی امین کے حوالے سے بات کی تو وہ بات مجھے اس لڑکی نے کہی اور اس لڑکی کے چچا نے مجھ سے اپیل کی کہ علی امین کو سمجھائیں، پارٹی تحقیقات کرے یا میرے ذمہ لگاتے ہیں تو میں ان کی ویڈیوز دکھاسکتا ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ علی امین اور ان کے چچا ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں، یہ میرے پیٹ کی بنائی ہوئی بات نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ علی امین پر اگر کالعدم تنظیموں کی شکایت کا میں نے ذکر کیا تو وہ اکرام گنڈاپور اور انعام گنڈاپور ہیں جو شہید اسرار گنڈاپور کے بھائی ہیں انہوں نے درخواستیں دی ہیں میں نے نہیں دیں، یہ جھوٹا نہیں ہوسکتا، تیسری بات یہ ہے کہ میں ایک مظلوم یتیم لڑکی کے ساتھ کھڑا ہوں جس کو برہنہ کر کے تین چار گھنٹے ظالم ملزمان نے گلیوں میں پھرایا ہے، کیا عمران خان دنیا کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو بندہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوگا، یہ واقعہ حقیقت ہے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ واقعہ نہیں ہوا، اگر یہ واقعہ نہیں ہوا پھر تو میں جھوٹ بول رہا ہوں اور مجھے سزا ملنی چاہئے لیکن ایک ویڈیو بیان پر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، پارٹی کے آئین اور وژن کی پاسداری جتنی میں نے کی ہے کسی نے نہیں کی، علی امین پر ایف آئی آرز پولیس نے کاٹی ہیں، میرا دامن ہمیشہ سے صاف رہا ہے۔

شاہزیب خانزادہ: آپ کو لینے سے پہلے ہم نے یہ بات کہہ دی کہ اتنا حساس واقعہ ہے، ایک لڑکی بیچاری اس کے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے اور عمران خان نے اس کی مذمت تک نہیں کی ہے، مگر آئی جی سے بات کر کے انہوں نے کہا کہ آئی جی نے کہا ہے کہ کوئی ایسی انوالمنٹ نہیں تھی کوئی ایسا دبائو نہیں ہے، اس کے بعد انہوں نے آپ کو پارٹی سے نکالا ہے؟داور خان کنڈی: پارٹی سے مجھے نہیں نکال سکتے، پارٹی کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے، عمران خان کو میں نے خط لکھ کر بروقت بتادیا تھا، عمران خان مجھ سے ملاقات سے گریز کرتے ہیں، میری باتیں ایسی ہیں جن پر وہ سمجھتے ہیں، مجھے انہوں نے کہا کہ میں تمہاری باتوں پر helpless ہوں، تمہارے مسائل میں حل نہیں کرسکتا۔شاہزیب خانزادہ: کیا reason دیا؟داور خان کنڈی: reason یہ دیا کہ میں وزیراعلیٰ کو نہیں کہہ سکتا کہ وہ آپ کے جو مطالبات ہیں…ہم نے تحریک شروع کی تھی کہ پارٹی کو منشور کے مطابق چلایا جائے…

شاہزیب خانزادہ: کیوں نہیں کہہ سکتے، وزیراعلیٰ پارٹی کے کارکن ہیں، پرویز خٹک سے ایسی کیا مجبوری ہے؟داور خان کنڈی: یہ تو آپ خان صاحب سے پوچھیں، جس چیز پر میں آنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خان صاحب نے کیس کے کئی دن بعد اس واقعہ پر بات کی ہے اور یہ بات کی ہے کہ یتیم لڑکی کے ساتھ کھڑے ہونے والے اپنی پارٹی کے ایم این اے کو میں پارٹی سے نکال رہا ہوں، جس بندے پر درجنوں ایف آئی آرز ہیں، میں یہ جو باتیں کہہ رہا ہوں کہ علی امین ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں وہ اس یتیم لڑکی کا چاچا ہے، وہ یتیم لڑکی موجود ہے، عمران خان اپنی ٹیم بھیج کر اس سے پوچھیں کہ کون ملوث ہے، کل اس نے خود دوبارہ بیان دیا ہے کہ علی امین ہمیں پریشرائز کررہا ہے،جو باتیں میں نے کی ہیں وہ حقائق ہیں الزامات نہیں ہیں، اگر یہ حقائق ثابت ہوگئے تو خان صاحب نے جو مجھے جھوٹا قرار دیا ہے تو کیا خان صاحب اس پر اپنی ہی پارٹی کے ڈسپلنری کمیٹی میں پیش ہوں گے، میری درجنوں درخواستیں اس کمیٹی میں موجود ہیں ابھی تک اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔

شاہزیب خانزادہ: اہم بات یہ ہے کہ کیونکہ اس میں ایک لڑکی انوالوہے، ایک خاندان انوالو ہے تو دونوں طرف سے ایک بات نہیں ہونی چاہئے، نہ تو خان صاحب کو یہ حق ہے کہ وہ مذمت کر نہیں رہے اور اس واقعہ پر کسی بھی طریقے سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے اور جو الزام لگائے اسی کو پارٹی سے نکال دیا جائے، نہ انہیں حق ہے نہ آپ کو حق ہے کہ آپ اس واقعہ کو استعمال کرتے ہوئے اگر آپ کی کوئی علی امین گنڈاپور سے مخالفت ہے تو آپ اس کا فائدہ اٹھائیں، اگر آپ کے پاس ثبوت ہیں تو پولیس کو دیجئے یا عدالت میں جائیں، ان دونوں میں سے کوئی کام کریں گے یا آپ نے ابھی تک کی ہے جب آپ کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے؟داور خان کنڈی: میں نے یہ کام کیے ہیں، علی امین گنڈاپور سے میری کوئی سیاسی مخالفت نہیں ہے، ہم ایک ہی پارٹی کے لوگ ہیں لیکن چونکہ خان صاحب ہیں یہ تربیت دیتے رہے کہ اگر میں بھی کوئی غلطی کروں تو مجھے بھی گریبان سے پکڑیں، یہ ان کے لیکچرز تھے جن پر ہم عمل کررہے ہیں، دوسرا عدالت میں جانے کی مجھے کیا ضرورت ہے، میں اپنی پارٹی کی نمائندگی بطور ایم این اے کرتا ہوں، وہ واقعہ میرے حلقے میں ہوا ، یہ میری اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری تھی کہ اگر کوئی سوشل ایشو آتا ہے، دیکھیں جی ہمارا علاقہ بہت ہی ریموٹ ہے ڈی آئی خان اور ٹانک۔

وہاں سیکڑوں دیہاتوں میں پینے کا پانی نہیں ہے، ڈیولپمنٹ نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ: اگر آپ چاہتے ہیں بچی کو انصاف ملے تو آپ عدالت کیوں نہیں جائیں گے، ثبوت لے کر کیوں نہیں عدالت جائیں گے، ثبوت دیجئے ہمیں بھیجئے، ہم جائیں گے عدالت، یہ کیا بات ہوئی؟داور خان کنڈی: بالکل میں آپ کو وہ تمام ثبوت دوں گا لیکن میں پہلے یہ کلیئر کردوں کہ خان صاحب نے میرے حوالے سے جس طرح کی گفتگو کی ہے ایک تو مجھے پارٹی سے وہ اس لئے نہیں نکال سکتے کہ میں نے پارٹی violation نہیں کی، تمام میٹنگز اٹینڈ کی ہیں، پارلیمانی پارٹی کی تمام میٹنگز اٹینڈ کی ہیں، اگر کوئی دو تین چار پانچ پارٹی میٹنگز میں میں نہیں گیا ہوں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں پارٹی سے نکال دیا جائوؒں۔ دوسرا کبھی بھی کسی چینل پر میں نے بیٹھ کر پارٹی کے خلاف بات نہیں کی، وہ خود انویسٹی گیٹ کرلیں۔

شاہزیب خانزادہ: اس بچی کے مسئلہ کو منطقی انجام تک آپ کیسے پہنچائیں گے آپ کے پاس اگر ثبوت ہیں ،آپ بس ایسے ہی لے کر بیٹھ جائیں گے اس معاملہ کو، پولیس کو دیں گے؟داور خان کنڈی: میں ایک چیز بتادوں، ڈی آئی جی اور ڈی پی او نے چالان مکمل کرلیا ، آٹھ بندے گرفتار ہیں، نویں بندے کی گرفتاری کیلئے پولیس پر ہم دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ کوشش کریں، دوسری بات جب پہلے دن واقعہ ہوتا ہے تو ایس ایچ او الٹا انہی لوگوں پر ایف آئی آر کاٹتا ہے جو مظلوم ہیں، پھر آئی جی پولیس اور وزیراعلیٰ کے پریشر پر جب سوشل میڈیا پر یہ بات آتی ہے وہ ایف آئی آ وہ کریش کرتا ہے، ختم کرتا ہے، اس سے بڑا ثبوت میں کیا دے سکتا ہوں کہ پولیس متعصب نہیں تھیں، پھر دوبارہ ایف آئی آر کاٹی گئی، اس لڑکی نے خود کہا کہ ایس ایچ او نے میری ماں کو گالیاں دی ہیں، میں نے آئی جی پولیس کو لکھا، ان کو ٹیکسٹ کیا، آئی جی پولیس مجھے کہتے ہیں کہ آپ آر پی او سے ملیں، آر پی او شریف آدمی ہیں، آر پی او کہتا ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہے،خان صاحب اس واقعہ کو نہیں جھٹلاسکتے، اگر آئی جی پولیس میرے حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو دیکھیں آئی جی کو نہ میں نے influence کیا ہے نہ علی امین نے influence کیا ہے، علی امین کی بات یہ آتی ہے کہ دیکھیں اگر کوئی شخص اس یتیم لڑکی کے مخالفین کے ساتھ کھڑا ہوگا، میں نے بروقت عوام کو بتایا اور یہ بھی بتایا کہ میں اس لڑکی کے ساتھ ہوں۔

شاہزیب خانزادہ: آپ یہ ثبوت ہمیں بھیجیں اور آپ ذاتی طور پر کہاں تک اس مسئلہ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے یا ایسے ہی بیٹھ جائیں گے اگر آپ کہہ رہے ہیں پولیس influence ہے، آپ کہہ رہے ہیں، آئی جی نے تو یہ بتایا ہے کہ کوئی پروف نہیں ہے عمران صاحب کو اور آپ کو پارٹی سے نکال دیا گیا اب آپ کیا کریں گے ، ایسے ہی بیٹھ جائیں گے، بچی کا معاملہ ہے؟داور خان کنڈی: پارٹی سے وہ مجھے نہیں نکال سکتے۔شاہزیب خانزادہ: آپ کریں گے کیا؟ آپ کی پارٹی کا مسئلہ آپ کی پارٹی کا مسئلہ ہے بچی کے انصاف کے لئے آپ کیا کریں گے؟داور خان کنڈی: میں تحریک انصاف کی آواز ہوں اور وہ یوتھ جن کی آج نہیں سنی جاتی خاموش آوازیں…شاہزیب خانزادہ: داور کنڈی صاحب بچی کوا نصاف دلانے کیلئے آپ کیا کریں گے؟داور خان کنڈی: بچی کو انصاف دلانے کے لئے میں اپنی صوبائی حکومت سے لڑپڑا ہوں، آئی جی پولیس کو میں مجبور کروں گا کہ وہ اس میں ایکشن لیں، پندرہ دن وہ ایس ایچ او جس پر انکوائری ڈالی گئی وہ اسی تھانے میں موجود رہا، میں پوچھتا ہوں یہ کیسی مثالی پولیس تھی، آئی جی پولیس کو میں مخاطب کرنا چاہتا ہوں کہ آئی جی صاحب پندرہ دن آپ نے اس کو کیوں بٹھائے رکھا، کیا ہمارے منسٹرز اتنے مضبوط ہیں کہ ایک لڑکی کے ساتھ ظلم ہوگا اور ایس ایچ اواسی طرح بیٹھا رہے گا، علی امین کے چچا کی دو پریس کانفرنسز وائرل ہیں جس میں انہوں نے خود کہا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ ہوا نہیں ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ داور کنڈی صاحب کہہ رہے تھے کہ پارٹی کیلئے یہ مثال نقصان دہ ہے، پولیس پر الزام تھا، پولیس کا اپنا کردار اس میں متنازع ہے مگر آئی جی کے کہنے پر بغیر کوئی تحقیقاتی رپورٹ سامنے رکھے داور کنڈی کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، ایک عجیب سی بات ہے، تحریک انصاف میں ایک روایت جنم لے رہی ہے بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ لے چکی ہے کہ جو الزام لگائے جس پر لگائے اس کے خلاف تحقیقات کرنے کے بجائے الزام لگانے والے کو ہی پارٹی سے نکال دو، جو اختلاف کرے اسے نکال دو، جو غلطیوں کی نشاندہی کرے اسے نکال دو، داور خان کنڈی اس کی پہلی مثال نہیں ہیں، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ لازمی نہیں ہے کہ داور کنڈی کے سارے الزامات درست ہوں مگر تحقیقات ہونا لازمی تھیں، پولیس پر خود سوالات اٹھ رہے ہیں، آئی جی کے کہنے پر داور کنڈی کو نکال دیا گیا، خان صاحب کے لئے بہتر تھا کہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے رکھتے ، اس واقعہ کی شدید الفاظ میں اس طرح مذمت کرتے کہ آئندہ کسی میں ہمت نہ ہو، مگر اور بھی واقعات ہیں، پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے عمران خان اور پارٹی پر غیرملکی فنڈنگ اور پارٹی فنڈنگ میں گڑبڑ کا الزام لگایا مگر الزام کی تحقیقات کے بجائے اکبر ایس بابر ہی کو پارٹی سے نکال دیا، اکبر ایس بابر یہ معاملہ الیکشن کمیشن لے گئے، اگر الزامات بے بنیاد تھے تو اسی وقت تحقیقات کر کے اکبر ایس بابر کو مطمئن کردیا جاتا اور اگر وہ اس کے بعد بھی الزامات پر قائم رہتے تو پھر کارروائی ہوتی، اکبر ایس بابر کے بعد ایک اور سینئر رہنما جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت پر سنگین الزامات لگائے، تحریک انصاف کے پہلے انٹراپارٹی انتخابات میں بے ضابطگی ہوئی جس کی تحقیقات کی ذمہ داری خود عمران خان نے جسٹس وجیہہ الدین کو دی، پارٹی انتخابات کروا کر اور پھر اس میں بے ضابطگی کی تحقیقات کروا کر خان صاحب نے بہت اچھی روایت قائم کی، مگر جب جسٹس وجیہہ الدین نے تحقیقاتی رپورٹ دی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جہانگیر ترین، علیم خان اور پرویز خٹک پارٹی انتخابات پر اثر انداز ہوئے۔

تازہ ترین