• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بھارت سرحد اور لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزیاں ایک مدت سے آئے دن کا معمول ہیں جن پر جوابی کارروائی پاکستان کے لیے بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ یوں مودی حکومت کی شرپسندانہ اور اشتعال انگیزی حکمت عملی نے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کو سخت خطرے میں ڈال رکھا ہے ۔ گزشتہ روز بھی کنٹرول لائن پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت دو افراد شہید اور چار زخمی ہوگئے جبکہ پاک فوج نے منہ توڑ جواب دے کر دشمن کی بندوقیں خاموش کرادیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعہ کو راولپنڈی میں کور ہیڈ کوارٹر کے دورے کے موقع پر جہاں فائر بندی کی بھارتی خلاف ورزیوں کا پاک فوج کی جانب سے مؤثر جواب دیے جانے پر اظہار اطمینان کیا وہیں قوم کوا س حقیقت کا احساس بھی دلایا کہ ہماری مشرقی سرحد اور کنڑول لائن پر کسی بڑے تصادم کا خطرہ مستقل طور پر موجود ہے جس سے غفلت نہیں برتی جاسکتی لہٰذا ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہماری تیاری ہر لمحے مکمل رہنی چاہیے ۔بھارت نے باہمی کشیدگی میں مسلسل اضافے کی جو امن دشمن پالیسی اپنا رکھی ہے اس کا کچھ اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال رواں میں اب تک بھارتی افواج لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائر بندی معاہدے کی 1300 سے زائد مرتبہ خلاف ورزی کرکے انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پامالی کی مرتکب ہوچکی ہیں۔ بھارت خطے میں امن و استحکام قائم کرنے کے بجائے جنگ کے شعلے بھڑکانے کی کوششوں میں جن اسباب سے مشغول ہے اس میں سے ایک واضح طور پر یہ ہے کہ کشمیر یوں کی جانب سے حق خود اختیاری کے مطالبے کی ناقابل شکست تحریک کی جانب سے دنیا کی توجہ ہٹائی جائے جبکہ دوسرا سبب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے جس نے بھارتی قیادت کو آتش زیرپا بنارکھا ہے ۔ اس کی بناء پروہ پاکستان کے خلاف مسلسل سازشی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ افواج پاکستان کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل زبیر محمود حیات دو روز پہلے ہی ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس خبر کی توثیق کرچکے ہیں کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مودی سرکار پچاس کروڑ ڈالر مختص کرچکی ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را اس رقم کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال کررہی ہے۔ جبکہ چین اور پاکستان دونوں کی جانب سے بھارت کوسی پیک میں شامل ہونے کی کھلی پیشکش کی جاچکی ہے جسے قبول کرکے بھارت خود اپنے عوام کے لیے خوشحالی کی راہیں کشادہ کرسکتا ہے ۔ اس لیے بھارت کے اس منفی رویے کو تعصب،حسداور بغض کا نتیجہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جس کا کوئی جواز موجود نہیں جبکہ بھارتی اشتعال انگیزیاں کسی بھی وقت بڑے تصادم میں بدل سکتی ہیں اور جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑسکتی ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال بعید از قیاس نہیں۔ ان حالات میں نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری پاکستانی قوم کو ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا جبکہ عالمی برادری کو بھی جنوبی ایشیا کی اس سلگتی ہوئی صورت حال پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے ۔ وطن عزیز بلاشبہ آج اپنی تاریخ کے ایک بڑے مشکل دور سے گزررہا ہے، اسے داخلی اور بیرونی دونوں محاذوں پر سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، لیکن یہ امر بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قومیں مشکلات کو جرأت و جواں مردی سے شکست دے کر ہی سربلندو سرفراز ہوتی ہیں۔ یہ بات محض شاعری نہیںبلکہ اقوام عالم کے عروج و زوال کے گہرے مطالعہ سے اخذ کردہ نتیجہ ہے کہ تندی باد مخالف سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ یہی پرواز کو بلند کرنے کا سبب بنتی ہے۔ پاکستانی قوم کو بھی آج جو مشکلات درپیش ہیں، ان شاء اللہ وہ اسے مزید مستحکم اور توانا کرنے کا ذریعہ بنیں گی لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی صفوں کو انتشار سے پاک کرنا ہوگا اور اختلافات کو دشمنی تک پہنچانے کے بجائے آئینی و جمہوری حدود میں افہام و تفہیم سے طے کرنے کو اپنا شعار بنانا ہوگا۔

تازہ ترین