• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان دنیا کی ایسی امتیازی ریاست ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے بحرانی کیفیت میں ہی رہتی ہے، لیکن اس کا کمال یہ ہے کہ یہ بڑے سے بڑے بحران میں بھی، ارتقا کے عمل میں بھی نئے اہداف حاصل کرتا ہے۔ 1970-71ء میں جب پاکستان کا سیاسی بحران اپنی انتہا پر پہنچ کر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو جلد ہی ملک کو پہلا متفقہ آئین مل گیا جو آنے والے کتنے ہی سیاسی بحرانوں کے باوجود آج بھی نافذ العمل ہے بلکہ ملک کے جاری اقتصادی، سیاسی بحران کو قابو میں رکھنے کے لئے شاک آبزرور کا کام دے رہا ہے۔ بدقسمتی سے 1973 تادم مسلسل سول منتخب حکمرانوں کی آئین، اپنے حلف اور عوام سے بے وفائی کے باعث یہ گنجائش باقی رہی کہ ملک میں ماوراء آئین فوجی اور فوجی سول حکومتیں آمریت اور نیم جمہوریت کی شکل میں قائم ہو جاتیں، لیکن اس طویل بحرانی کیفیت کے باوجود قوم کا جمہوری جذبہ برقرار رہنے اور آئین 1973 کے برقرار رہنے کا ہی نتیجہ ہے کہ حقیقی جمہوریت کی جانب بڑھتے بڑے کامیاب نتائج بھی نکل آئے جو پاکستانی قوم کی مجموعی کامیابی ہے۔ یہ نتائج کیا ہیں؟
٭ملک میں متفقہ علیہ دستور کی موجودگی اور اس کا اطلاق (جسے مکمل اور اس کی روح کے مطابق نافذ العمل ہونے کے چیلنج سے قوم اب سنجیدگی سے نمٹ رہی ہے اور کامیابی کا گراف بڑھ رہا ہے)
٭پاکستان ایٹمی طاقت کا درجہ حاصل کرکے اپنی دفاعی صلاحیت کی کامیابی کو پوری دنیا سے منوا چکا ہے، جو پاکستان نے اپنے قومی اتحادو انہماک سے حاصل کی۔ کامیابی کا یہ سفر جاری و ساری ہے، حاصل کامیابیاں بھی کھل کھلا کر آشکار ہوگئیں تو دنیا ان شااللہ محو حیرت ہوجائے گی کہ ایک مسلسل بحرانی مملکت دفاعی اعتبار سے اتنی کامیاب ثابت ہوئی جس کا اندازہ ہمارے دشمن کو ہی نہ ہوسکا۔ اس کی ایک جھلک تو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابی اور دشمن طاقتوں کی مسلسل ناکامی کی صورت میں نظر آ چکی ہے۔
٭پاکستان، (شکر الحمدللہ) بالائی سطح پر ایک مکمل آزاد، غیر جانبدار اور فعال عدلیہ کے قیام میں بالآخر کامیاب ہوگیا، جس نے آئین و قانون کی روشنی میں دو منتخب وزراء اعظم کو اپنے تاریخی فیصلوں سے عہدے سے اس طرح الگ کیا کہ جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی عمل جاری و ساری رہا اور ہے۔ اسی کی بدولت اللہ کی تائید کے واضح اشاروں سے پاکستان جیسی کرپٹ حکمرانی میں بالاترین سطح پر احتساب کا ناممکن معلوم دیتا عمل ممکن ہوگیا جو کامیابی سے جاری ہے۔
٭جمہوریت کو مذاق بناتے ہوئے اسے مصنوعی اور جعلی طور طریقوں اور سماجی پسماندگی سے بنائے گئے طاقتور سیاسی خاندانوں کے قومی جمہوری و سیاسی عمل اور وفاقی اور صوبائی حکمرانیوں پر جکڑ ڈھیلی پڑتی اور ختم ہوتی نظر آ رہی ہے، جو پاکستان کے سیاسی و اقتصادی استحکام کے لئے بہت پہلے سے ہی ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ بالائی سطح پر عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کے مطابق اپنے اختیارات کی کارفرمائی ہی کا نتیجہ ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور سیکورٹی ایکسچینج آف پاکستان جیسے بگڑے ہوئے ریاستی اداروں کے بمطابق آئین چلنے کا سامان ہوا ہے۔ اس پر روایتی اور جذبہ ترحم میں ڈوبی چیخ و پکار کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ امید واثق ہے کہ بیمار پارلیمان، الیکشن کمیشن آف پاکستان، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، آڈیٹر جنرل آ ف پاکستان، مقامی حکومتوں کے بحال نظام، اور بگڑتے نظام تعلیم و صحت کی سمت درست کرنے میں بھی آنے والے وقت میں عدلیہ کا آئینی و قانونی کردار بہت اہمیت کا حامل اور پاکستان کی موجودہ بحرانی کیفیت کو ختم کرنے میں تاریخ ساز ہوگا۔ اتنا کہ ترقی پذیر جمہوریتوں کی گورننس کی درستی کے لئے مثال بن جائے گا۔
٭استحکام پاکستان کے لئے افواج پاکستان کےانتظامی نظام میں آئین و قانون کی بالادستی کا جو اعتراف پیدا ہوا ہے وہ مسلط دہشت گردی کے خلاف سول حکومتوں کے اعتماد سے عظیم کامیابیوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ افواج پاکستان کی کمٹمنٹ کو حقیقی علمی و جمہوری حلقوں میں بھی بڑی قدر کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
٭بلاشبہ پاکستان میں میڈیا کے مثبت کردار کا دائرہ بھی اس کے حجم کے ساتھ ساتھ بڑھنا بڑی کامیابی ہے، لیکن آزادی اور اپنی پیشہ واریت کے حوالوں سےیہ کچھ پیچیدگیوں میں بھی مبتلا ہے، جو دور کرنے کے لئے ہماری سول حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جمہوری و نظری تقاضوں کو گہرائی سے سمجھنا ہوگا اور اس کے مطابق میڈیا سے اپنے تعلقات استوار کرنے پڑیں گے۔ جس کے لئے مکالمے کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ابھی ایک ’’ عظیم کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم‘‘ قائم ہو نا باقی ہے، جو ہمارے جملہ اور انتہائی پیچیدہ مسائل کا حل ہوگا اور کتنے ہی مسائل کو روکنے یا پیدا ہوتے ہی ختم کردینے کا ضامن ہوگا۔ اس کا مطلوب پوٹینشل پہلے ہی موجود ہے۔
بین الاقوامی اور علاقائی سیاسی حوالے سے پاکستان نئے اور تشویشناک چیلنجزسے مسلسل دو چار رہنے اور نئے پیدا ہونے کے باوجود، اسی سطح کی خارجی سیاست کے ظہور پذیر حوالوں سے انقلابی تبدیلیوں کے لئے نئی امیدوں کا بھی مرکز ہے۔ سی پیک اور پاکستان کی جانب دنیا کے کتنے ہی اہم ترین ممالک کا متوجہ ہونا ہمیں کتنے ہی روشن امکانات کا پتہ دے رہا ہے۔
ایسے میں ہمار ی داخلی سیاسی، اقتصادی صورت حال قرضوں کی ادائیگی کا چیلنج اور پھر پاکستان کو ترقیٔ جاریہ کی راہ پر لگانے کا چیلنج کوئی معمولی نہیں بلکہ خطرات سے پُر ہے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ طرح طرح اور شدید داخلی بحران در بحران کی ایک عشرے کی کیفیت کے ساتھ ساتھ، پاکستان اپنی روایتی بنیادی کمزوریوں کے دور ہوئے جانے کے ارتقائی عمل میں بھی آچکا ہے، جو اول الذکر پر غالب ہے۔ ہمیں اب سارا زور دماغی اور قانونی و آئینی کا وشیں، ملک کے وسائل کو اسٹریم لائن کرنے، ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے، ناجائز اثاثوں کو قومیانے ، کرپشن کی نیچے سے اوپر تک سخت ترین قوانین سے بیخ کنی اور انتظامی اختیارات کے ناجائز استعمال کے قانونی انسداد کو ممکن بنانے پر لگانا ہوں گی۔ یہ چیلنج ہے الیکشن 18میں آنے والی منتخب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا جو تب ہی اس کار عظیم کی اہل ہوں گی کہ وہ آنے والے انتخاب میں خود کو تطہیر کے عمل سے گزار کر، اپنے اندر جمہوری جذبہ اور بمطابق جمہوریت اقدامات کرکے انتخابی معرکے کے لئے تیار ہوں۔ سب سے بڑھ کر سیاسی قیادت اور باقی جماعت میں اختیارات کا توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اہل امیدواروں کے انتخاب کا تعین انتخاب سے پہلے ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ہیئت اور کردار پر جو بے شمار جائز تنقید ہو چکی ہے اس کی روشنی میں مکمل جمہوری، آئینی اور قانونی فریم اور کلچر میں سیاسی جماعتوں کو ڈھالنا ، ان کی اپنی بقا اور مقبولیت اور قوم و ملک دونوں کا فوری اور شدید تقاضا ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین