• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگلے روز بلوچستان میں دہشت گردی کے دل دہلا دینے والے مزید دو ایسے واقعات رونما ہوئے ، جو بلوچستان کے حوالے سے موجودہ سیکورٹی پالیسی پر نظرثانی کے مطالبے کو تقویت پہنچاگئے ہیں ۔ ایک واقعہ ایرانی سرحد کے قریب تربت کے علاقے میں رونما ہوا ، جس میں 15 نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ۔ ان بدقسمت نوجوانوں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا ۔ دوسرا واقعہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رونما ہوا اور ایک پولیس افسر ایس پی محمد الیاس کو ان کی اہلیہ ، بیٹے اور پوتے سمیت شہید کر دیا گیا ۔ اس طرح دہشت گردوں نے ایک دن میں 19 بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر یہ پیغام دے دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں ، کارروائی کر سکتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے یہ دونوں خوف ناک واقعات اس وقت رونما ہوئے ، جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہو رہا تھا ، جس میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے انتہائی سینئر عہدیدار شریک تھے ۔ اس اجلاس میں سیکورٹی اداروں کی بلوچستان میں امن و استحکام قائم کرنے کی کوششوں کو سراہا گیا ۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ اگرچہ ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ تک درمیانی وقفے میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے اور اسی وقفے کو ہم امن سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن کبھی دو واقعات میں وقفہ بہت کم ہوتا ہے ۔ گزشتہ ہفتے ہی کوئٹہ میں ڈی آئی جی رینک کے ایک اور پولیس افسر کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ دہشت گردی کی نئی وارداتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں کو نہ صرف وسعت دے دی ہے بلکہ انہوں نے نئے طریقے اختیار کر لئے ہیں ۔ نہ صرف پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے افسران اور جوانوں کو وہ اپنا ہدف بنا رہے ہیں بلکہ وہ دہشت پھیلانے کے لئے عام لوگوں کو بھی بے رحمی سے قتل کر رہے ہیں ۔ کسی پولیس افسر کا یہ تجزیہ درست ہے کہ دہشت گرد کمزور اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ قانون نافذ کرنے والے سیکورٹی اداروں کے ایسے افسروں اور جوانوں پر حملے کیے جاتے ہیں ، جن کی سیکورٹی زیادہ نہیں ہوتی یا بالکل نہیں ہوتی ۔ عام لوگوں میں غریب اور نہتے لوگ ان کا شکار بنتے ہیں لیکن دہشت گرد اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ عام لوگوں کا قتل کرکے وہ ایک مخصوص پیغام دیں ۔ خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، جو مزدور اور محنت کش ہوتے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تربت میں جن نوجوانوں کو قتل کیا گیا ہے ، انہیں انسانی اسمگلر ایرانی سرحد کی طرف لے جا رہے تھے اور انہیں بیرون ملک نوکریوں کا جھانسہ دیا گیا تھا ۔ مقتول نوجوانوں کے ساتھ قافلے میں اور لوگ بھی تھے لیکن رپورٹس کے مطابق قافلے میں شناختی کارڈ دیکھ کر پنجاب کے نوجوانوں کو الگ کیا گیا اور انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ ایسے واقعات کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے قبول کی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں فرقہ ورانہ دہشت گردی بھی ہوتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیکورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے لئے خود بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔ ان کی قربانیوں اور کوششوں کی جس قدر ستائش کی جائے ، وہ کم ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلوچستان میں حالات کسی حد تک پہلے سے بہتر ہیں ، پائیدار امن قائم نہیں ہو سکا ہے اور حالات مزید خراب ہونے کے خدشات بھی بے جواز نہیں ہیں ۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہم نے مزید تاخیر کی تو بلوچستان کے حالات پر کنٹرول کرنے میں مشکلات بڑھتی جائیں گی ۔ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں دیواروں ، ڈبل کیبن بسوں اور ٹیکسیوں پر کھلے عام بینرز آویزاں نظر آتے ہیں ، جن پر بلوچستان کی آزادی کے نعرے تحریر ہوتے ہیں ۔ مختلف عالمی فورمز پر پاکستان مخالف لابی بلوچستان کے ایشو کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ بلوچستان خصوصاً کوئٹہ سمیت جنوب مغربی بلوچستان میں اخبارات کی تقسیم بھی ممکن نہیں رہی ہے ۔ وہاں کام کرنے والے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے لوگوں کی زندگیاں اور روزگار خطرے میں ہیں ۔ بلوچستان کی شاہراہوں پر سفر پر خطر ہو گیا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے عام لوگ حالات کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں اور اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بلوچستان کی پاکستان نواز سیاسی قوتیں حالات سے لاتعلق ہیں ۔ بلوچستان کے مرکزی اور صوبائی حکومت میں شامل سیاسی رہنما ہوں یا اپوزیشن کے لوگ ہوں ، کوئی بھی کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی معاملات میں اپنے آپ کو ملوث کرنا چاہتا ہے ۔ بلوچستان میں سیکورٹی کے حوالے سے جو پالیسی بنائی گئی ہے ، اس میں بلوچستان کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہے اور انہوں نے تمام معاملات سکیورٹی اداروں پر چھوڑ دئیے ہیں ۔ اس طرح بلوچستان کی سیکورٹی پالیسی میں کوئی سیاسی اپروچ نہیں ہے ۔ حقائق کو سمجھنا پڑے گا ۔ موجودہ پالیسی کامیاب نہیں ہے ۔ اس میں سیکورٹی اداروں کا بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ سیاسی قوتیں اب ان حالات میں گہرے پانیوں میں نہیں اترنا چاہتی ہیں ۔ اگر سیاسی قوتیں ان حالات میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی ہیں یا ان کے کردار کے لئے کوئی محفوظ راستہ نہیں بنایا جاتا ہے تو بحیثیت قوم ہماری تدبیروں کے لئے وقت محدود ہوتا جائے گا ۔بلوچستان کے قدرتی وسائل اور اس کے محل وقوع کی وجہ سے یہاں کی سرزمین کو عالمی قوتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان بنانے کے لئے بہت سازشیں ہو رہی ہیں ۔ سیاسی قیادت اور عسکری حلقوں کو اب مل بیٹھ کر بلوچستان کی صورت حال پر سوچنا ہو گا اور نئی حکمت عملی فوری طور پر وضع کرنا ہو گی ۔

تازہ ترین