• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے حکومت پنجاب نے ایک غیر ملکی دواساز ادارے کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ۔ اس موقع پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور محکمہ صحت کے دیگر افسران بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کے تحت یہ غیر ملکی دوا سازادارہ (Novartis Pharma Pakistan) چار خطرناک امراض کے لئے چھ ارب روپے کی ادویات تین لاکھ پچاس ہزار مریضوں کو مفت فراہم کرے گا۔ ان امراض میں شوگر، کینسر، دل اور سانس کے امراض شامل ہیں۔ اس معاہدے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ کسی غیر ملکی دوا ساز ادارے نے مریضوں کی تکلیفوں کو دیکھتے ہوئے ایک شاندار خدمت کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس کے برعکس افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کسی ملکی دوا ساز ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ کام کرتا جبکہ پاکستان میں کئی ملکی دوا ساز ادارے اپنی آمدن کے لحاظ سے اور اپنی ادویات کی سیل کے حساب سے پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی دوا ساز اداروں کی فہرست میں تیسرےاور چوتھے نمبر پر آچکے ہیں اور ملکی کمپنیوں میں پہلے نمبر پر ہیں۔دکھ اس بات کا ہے کہ جو ملکی دوا سازادارے اس ملک سے اربوں روپے کمارہے ہیں انہیں ایسی خدمت کا خیال کیوں نہیں آیا اور کاش! یہ دوا ساز ادارے ڈاکٹروں کوUnder handمختلف مراعات دینے کی بجائے مریضوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کئی دوا ساز ادارے ڈاکٹرز کو غیرملکی دورے، کوٹھیاں اور گاڑیاں دیتے ہیں۔ سال سال بھر کیGrossaryلے کر دیتے ہیں۔ بچوں کی فیسیں دیتے ہیں، اگر دوا ساز ادارے اپنے اخراجات میں کمی کریں اور ڈاکٹرز کو فائدہ پہنچانے کی بجائے مریضوں کا سوچیں تو ہر دوائی کی قیمت پچاس فیصد سے بھی کم ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں پچھلے تیس برسوں میں کینسر، شوگر، دل سانس، گردوں اور جگر کی بیماریوں میں بہت اضافہ ہوا ہے اور یہ شرح بڑھتی جارہی ہے کیا تین لاکھ پچاس ہزار مریضوں کو ادویات دینے سے بیماریاں ختم ہوجائیں گی؟ کیا لوگ صحت مند ہوجائیں گے؟ صرف پنجاب میں ان پانچ بیماریوں کے لاکھوںمریض ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ اعداد و شمار رکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے اس لئے کسی بھی بیماری کے بارے میں ہمارے پاس مکمل ڈیٹا نہیں ہے۔ حال ہی میں جیو پر ایک رپورٹ چلی جس کے مطابق پاکستان میں کینسر کا مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ کیا کینسر کے اسپتال بنا کر اور کینسر کی ادویات بنا کر اس مرض کو ختم کرسکتے ہیں؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے ایک پہاڑی ندی میں بچے گرتے آرہے تھے لوگ ندی کے نیچے بچوں کو نکال رہے تھے کسی نے کہا کہ ندی کے اوپر جاکر دیکھو کہ بچے کیسے گررہے ہیں اور کون انہیں گرارہا ہے۔ اس مثال کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں وہ وجہ تلاش کرنی ہے کہ کینسر آخر کیوں پھیل رہا ہے۔ ہمارے ہاں پچھلے چالیس برسوں میں زندگی بسر کرنے کے طور طریقے بدل گئے ہیں، ہر جگہ پلاسٹک کا استعمال، پلاسٹک کے لفافے، مائیکروویو اوون کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے یہ سوچیں کہ جن پلاسٹک کے لفافوں میں گرم گرم چنے انڈے، مرغ چنے، سری پائے، حلیم وغیرہ ڈالتے ہیں گرم سالن ڈالنے سے پلاسٹک کے لفافے کے کئی خطرناک ا جزاء اس کھانے میں شا مل ہوجاتے ہیں۔ پلاسٹک کے ڈبوں کے استعمال کا رواج بڑھ گیا ہے اور بین الاقوامی طور پر جن ڈبوں کے اوپر 2یا 4یا 5لکھا نہ ہو وہ کسی طور پر بھی استعمال کے قابل نہیں ۔باہر کے ممالک میں باقاعدہ پلاسٹک کے ڈبوں پر نمبر لکھے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جگہ جگہ محلوں میں ایسے کارخانے لگے ہوئے ہیں جواسپتال کے استعمال شدہ گلوکوز بیگز، خون کی خالی بوتلوں کےاستعمال شدہ بیگزاور استعمال شدہ سرنجوں کو پگھلا کر پلاسٹک کے لفافے بناتے ہیں ، کوئی حکومتی ادارہ نہ تو انہیں چیک کررہا ہے اور نہ کوئی کارروائی کررہا ہے ۔ جس ملک میں اسپتالوں کے پاس Insulators(اسپتالوں کا فضلہ تلف کرنے والی مشین)نہ ہوں وہاں پر بیماریاں نہیں پھیلیں گی تو کیا ہوگا۔لاہور جیسے بڑے شہر میں سوائے چلڈرن اسپتال اور شالاماراسپتال کے علاوہ کسی کے پاس اپنا انسولیٹر نہیں ۔ ذرا دیر کو یہ سوچیں کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں میں پرائیویٹ اسپتالوں اور سرکاری اسپتالوں کے Wasteکو کہاں تلف کیا جاتا ہوگا؟ حال ہی میں ٹی وی پر ایک رپورٹ چلی ہے کہ نارووال کے سرکاری اسپتال کا ویسٹ محلے میں لگی ہوئی بھٹی میں جلایا جا رہا ہے جس سے علاقہ مکین بیمار ہو رہے ہیں۔ محکمہ ماحولیات کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کباڑیے یہ ویسٹ لے جاکر انہی محلہ کے کارخانوں کو دیتے ہوں گے جو پلاسٹک کے لفافے اور ڈبے بناتے ہیں۔
ہماری کینسر کے کچھ ماہرین سے بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کے لفافے اور ڈبے جن میں لوگ کھانا لے کر جاتے ہیں اور مائیکرو ویو اوون میں گرم کرتے ہیں وہ انسانی صحت کے لئے زہر قاتل ہیں۔ حکومت کا یہ کہنا کہ ادویات کی مفت فراہمی کا دائرہ کار بارہ لاکھ افراد تک بڑھادیا جائے گاتو تب بھی کیا ہوگا؟کیا ہمارے ملک کی آبادی صرف بارہ لاکھ ہے۔ جس کو دوائی نہیں ملے گی وہ شورمچائے گا اور پھر نئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ حکومت خود بھی چار بیماریوں کی ادویات مفت دے گی۔ جبکہ ہر بیماری کے لاکھوں مریض ہیں صرف تین لاکھ پچاس ہزار مریضوں کو ادویات دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جب لوگ کاغذ کے لفافوں میں کھانے پینے کی اشیاء لے کر جاتے تھے ۔جب مائیکرو ویو اوون نہیں تھا، گھڑے کا پانی استعمال کرتے تھے تو اس دور کا جائزہ لیں تو اس وقت کینسر، دل کے امراض، شوگر کی شرح بہت کم تھی۔ پلاسٹک کا استعمال دنیا میں1907میں شروع کیا گیا تھا کیونکہ یہ بہت سستا ، آسان میٹریل سے بنایا جاتا ہے اور اس کا استعمال بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ امریکہ میںChimpanzeeپر ایک ریسرچ کی گئی تو پتہ چلا کہ پلاسٹک کے اندر جو مضر صحت ذرات ہوتے ہیں وہ تین نسلوں تک کو متاثر کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اس میں سرفہرست کینسر ہے۔ جس زمانے میں پاکستان میں لوگ شیشے کی بوتلوں میں کولا پیتے تھے اس زمانے میں بیماریاں بھی کم تھیں۔ ویسے تو لاہور کی یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز میں اور کنیئرڈ کالج نے اپنے ہاں کینٹین پر کولڈ ڈرنکس اور جوس کی فروخت پر پابندی لگادی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر پلاسٹک کے لفافوں اور ڈبوں پر پابندی لگائی جائے اور جن پلاسٹک کے ڈبوں پر بین الاقوامی محفوظ نمبر نہ لکھے ہوں وہ بالکل استعمال نہ کئے جائیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین میں چھاتی کا سرطان ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے ز یادہ ہوچکا ہے۔ ہر سال نوے ہزار خواتین چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہورہی ہیں جن میں سے چالیس ہزار موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ محکمہ صحت کے دونوں شعبے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ اور محکمہ اسپشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن عوام میں صحت اور آگاہی کے لئے بہت کام کررہے ہیں لیکن بات پھر وہی آتی ہے جب تک ہم بیماریاں پیدا کرنے والی وجوہات کو تلاش نہیں کریں گے اور انہیں ختم نہیں کریں گے بیماریاں بڑھتی رہیں گی اور مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ترین ہےاور کینسر کی ادویات بھی بہت مہنگی ہیں۔ انسان نے اپنی تباہی کا خود ہی بندوست کیا ہواہے۔پلاسٹک کی ا یجاد ایک سائنسدان نے کی تھی اس کا نام تھا(Leo Hendrik)۔پلاسٹک میں سیفینل اے نام کا ایک میٹریل ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ 1930میں پلاسٹک کے انسانی صحت پر نقصانات پر ریسرچ شروع ہوگئی تھی۔ آج امریکہ، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پھر سے شیشے کی بوتلوں اور چینی کے برتنوں کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔ مٹی اور شیشے سے تیار کئے جانے والے برتن صحت کے لئے نقصاندہ نہیں۔ حال ہی میں ہماری انٹرنیشنل ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر محمد فیاض سے بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر سے تمام پلاسٹک کے برتن ختم کردئیے ہیں جبکہ پانی کے لئے گھڑے کا استعمال شروع کردیا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سرکاری اسکولوں کالجوں میں جو رنگ برنگ چیزیں فروخت کی جارہی ہیں ان میں کہیں بھی فوڈ کلر استعمال نہیں ہوتے۔ کپڑا رنگنے والے اور فرنیچر رنگنے والے رنگوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ سبزیوں کوجلد پکانے کے لئے ان پر مضر صحت اسپرے کئے جارہے ہیں حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ہزاروں ایکڑ پر لگی ایسی سبزی تلف کردی ہے جس کو جلد پکانے کے لئے کیمیکلز کا اسپرے کیا گیا تھا۔

تازہ ترین