• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک: بھارتی سازش کے توڑ کیلئے بلوچستان کا سیاسی حل ضروری

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی اور شورش کو اسپانسر کرنے پر توجہ مرکوز کر دی ہے تاکہ سی پیک کو ہدف بنایا جاسکے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت نے بھی سیاسی حل پر زور دینا کم کر دیا ہے۔ کئی برس قبل سرکاری حکام نے ناراض بلوچوں کو واپس لانے کے منصوبے کی منظوری دینے کے علاوہ کچھ اہم منحرف بلوچ رہنماؤں کے ساتھ رابطے بھی استوار کیے تھے۔ تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ باخبر سرکاری ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کے دوران سیاسی حل کے پہلو پر توجہ ختم ہو چکی ہے۔ ماضی قریب کے دوران کچھ خودساختہ جلاوطن بلوچ رہنماؤں نے پاکستان کے خلاف اپنی مہم کو مزید آگے بڑھایا ہے اور اسی دوران یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ بھارت نے بلوچستان میں بے چینی پھیلا کر سی پیک کو نشانہ بنانے کے لئے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

ملک کی سیکورٹی انتظامیہ سے وابستہ ایک باخبر سرکاری ذریعے نے دی نیوز کو بتایا کہ بھارت کے ناپاک عزائم کو انتظامی، ترقیاتی اور سیاسی حل کے ذریعے موثر طور پر ناکام بنایا جاسکتا تھا۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ اس دوران جبکہ سیکورٹی ایجنسیاں صوبے میں دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری بھی ہوئی ہے لیکن پائیدار امن کے مقصد کے لئے سیاسی حل نہیں نکالا جاسکا جس کی وجہ بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلی کے طور پر عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں چند برس قبل بعض منحرف بلوچ رہنماؤں بشمول جلاوطن خان آف قلات میر سلیمان داؤد اور براہمداغ بگٹی سے رابطے استوار ہوئے تھے۔ اس وقت میڈیا میں یہ رپورٹ ہوا تھا کہ حکام نے براہمداغ بگٹی کو ہتھیار ڈالنے، تشدد ترک کرنےاور مرکزی دھارے میں واپس آنے پر رضامند کیا تھا۔ اس وقت حکام براہمداغ بگٹی کے ساتھ ان رابطوں کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید تھے لیکن بعد میں بگٹی کے کیس میں بہت پیچیدہ ہوگئیں کیونکہ اس نے بھارتی شہریت لے لی تھی۔

پھر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے خان آف قلات میر سلیمان داؤد کو ملک میں واپس آنے پر رضامند کرنے کے لئے گرینڈ بلوچ جرگہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عبدالمالک نے اس وقت کہا تھا کہ انہوں نے خان آف قلات سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ کے اپنے ایک دورے کے دوران پرامن بلوچستان منصوبے کی منظوری بھی دی تھی جس کا مقصد ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانا تھا۔ نواز شریف نے اعلی سطح کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوگ جو ہتھیار ڈال دیں گے انہیں مراعات دی جائیں گی۔ پرامن بلوچستان منصوبہ جس اجلاس میں منظور کیا گیا تھا اس میں اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور کمانڈر جنوبی کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ شامل تھے۔ متعلقہ حکام سے کہا گیا تھا کہ وہ بلوچستان کے عوام تک پہنچیں اور ترقیاتی عمل میں انہیں پارٹنر بنائیں۔ پاکستانی سیکورٹی ایجنسیز کے مطابق بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ منحرف بلوچوں کو مالی مدد فراہم کرنے میں ملوث ہے تاکہ بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں کی جا سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ را نے سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کو اسپانسر کیا جنہیں پاکستان کے خلاف گمراہ کرنے کے لئے کابل لے جایا گیا۔ تربیت کے علاوہ را نے بلوچستان کے بلوچ اکثریت کے علاقے میں پاکستان کے خلاف پروپگنڈے کے لئے مواد شائع کرنے کی خاطر مالی مدد بھی فراہم کی ہے۔

تازہ ترین