• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے معاشرے میں ہر سطح پر احتجاج، غصے، تشدد اور انتہاپسندی کے مظاہر عام ہیں ۔ سیاسی رہنماؤں کے بیانات ہوں یا ٹی وی مذاکرے، چینلوں کے میزبانوں کا لب و لہجہ ہو یاکالم نگاروں کی زبان، تعلیمی اداروں میں طلباء کے مطالبات ہوں یا سوشل میڈیا پر سیاسی ، مذہبی اور سماجی موضوعات پر جاری بحثیں، مخالفین کے خلاف سیاسی قائدین کی مہم جوئیاں ہوں یاعلمائے دین کے خطبات اور ان کے عقیدت مندوں کی تحریکیں، ہر جگہ غیظ و غضب کا ہوش ربا اظہار، درشت اطوار کا غیر ضروری مظاہرہ اور غیرشائستہ الفاظ کا بے محابا استعمال اب بالعموم ہماری قومی زندگی کا لازمہ بن گیا ہے۔ کبھی توہین مذہب کے شبہ میں کسی تحقیق کے بغیر لوگوں کے ہجوم پوری کی پوری بستیاں پھونک ڈالتے ہیں تو کبھی ارباب اقتدار کی بے جواز سختی ماڈل ٹاؤن جیسے سانحات کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض عدالتی فیصلوں تک میں ایسے فقرے لکھے گئے ہیں جن میں قانونی تقاضوں کی بجائے غصے کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے علمائے کرام کی بھی کمی نہیں جن کی جانب سے مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کے معاملے میں رواداری اور برداشت کی اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی طرزعمل اختیار کرتے ہوئے دوسرے مسالک کے وابستگان کو محض کافر ہی نہیں واجب القتل تک قرار دینے کے فتوے دیے گئے ہیں حالانکہ ملک کے تمام مسالک کے ممتاز علمائے کرام دستور سازی کے مختلف مراحل میں بار بار اپنے اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرچکے ہیں اور بنیادی ایمانیات پر اتفاق کو کسی بھی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے کافی و شافی قرار دے چکے ہیں۔ وطن عزیز کا موجودہ متفقہ آئین ملک کی دینی و سیاسی قیادت کے اسی اتفاق کا حاصل ہے۔ تاہم ہمارے سیاسی دھرنے ہی انتقامی جذبوں سے مغلوب نظر نہیں آتے ،مذہب کے حوالے سے دیے جانے والے دھرنوں میں بھی برملا تشدد کا پرچار ہوتا ہے ، منتظمین اور شرکاء کی جانب سے عوام الناس کی تکالیف کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا اور انسانی حقوق کی بے دریغ پامالی کو کسی معذرت خواہی اور احساس ذمہ داری کے بغیر روا رکھا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں ان رویوں کا مشاہدہ پوری قوم پچھلے دو ہفتوں کے دوران کرتی رہی ہے۔ لسانی اور علاقائی منافرت کے دو انتہائی ہولناک واقعات بھی پچھلے چند روز میں پیش آئے ہیں جن میں روزگار کی خاطر بیرون ملک لے جائے جانے کا جھانسہ دے کر پنجاب کے بیس نوجوان بلوچستان میں قتل کردیے گئے۔ نفرت، تشدد، عدم برداشت، غصے، بیزاری، اشتعال اور انتہاپسندی کے یہ رجحانات ہمارے معاشرے میں مسلسل کیوں بڑھ رہے ہیں ، ان کے اسباب کیا ہیں اور ان کا تدارک کس طرح ممکن ہے،ہمارے تمام آئینی اداروں، سیاسی قائدین، علمائے کرام، ماہرین نفسیات اور اہل فکر و دانش کو ان سوالات کے جواب کی تلاش کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔اس صورت حال کی جڑ کا تعین کرکے معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے لیے کام کرنا ہوگا۔صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور دینی قیادتیں اورہمارے اداروں کے سربراہان پوری قوم کے لیے رواداری،شائستگی ، برداشت اور اختلافات کو عداوت اور مخاصمت میں تبدیل نہ ہونے دینے کا اپنے رویوں سے عملی ثبوت فراہم کریں اور عوام کے لیے قابل تقلید نمونہ بنیں۔ باہمی احترام اور تحمل کی اسلامی تعلیمات کو ہماری ہر سطح کی قیادت خود اپنا شعار بنائے۔ لوگوں کے جائز مطالبات کے حل میں بے جا تاخیر سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ ان کے مسائل اور مشکلات کے جلد از جلد ازالے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی جائیں۔ معاشرے میں دولت کے بڑھتے ہوئے غیرمنصفانہ تفاوت کا خاتمہ بھی عمومی بے چینی کے ازالے کے لیے ضروری ہے جبکہ اس کے لیے دولت کما نے کے تمام ناجائز ذرائع اور کرپشن کی ہرقسم پر مؤثر پابندی لازمی ہے۔ ان امور کا اہتمام معاشرے کی بقا اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے لہٰذا اس معاملے میں کسی لیت و لعل کی گنجائش نہیں۔

تازہ ترین