• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کے بحران کا شکار ہے۔لوڈ شیڈنگ کا ایک گھنٹہ فی دن سے شروع ہونے والا سلسلہ آج 20گھنٹوں تک پہنچ چکا ہے۔ہر نئی آنے والی حکومت لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے وعدے اور دعوے کرتی ہے ، مگر آج تک ملک کو اِس بحران سے نہیں نکالا جا سکا۔بجلی کی سستی اور زیادہ پیدوار کیلئے کئی تجرباتی پروجیکٹس لگائے گئے ، مگر پھر بھی بجلی کی طلب اور رسد میں موجود فرق میں کوئی واضح کمی واقع نہیں ہو سکی۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اِس وقت بجلی کی طلب 20,223میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ بجلی کی مجموعی پیداوار15,700میگا واٹ ہے۔جسکی وجہ سے اِس وقت 4723میگا واٹ شارٹ فال کا سامنا ہے۔گرمیوں میں یہ شارٹ فال 6000میگا واٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی کی طلب کو پورا کرنے کیلئے ملک بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بناء پرعوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔دوسری طرف موسمِ سرما کا آغاز ہوتے ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔سوئی گیس کی بندش اور کم پریشر نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔کھانے پکانے کیلئے لوگ مہنگے داموں ایل پی جی اور لکڑیاں خریدنے پر مجبور ہیں۔محکمہ سوئی گیس کا عملہ شہروں کو سپلائی ہونے والی سوئی گیس بند اور پرائیویٹ ملوں کو فراہم کر کے لاکھوں روپے کما رہا ہے۔مل مالکان گیس کا پریشر بڑھانے کیلئے غیر قانونی طور پر کمپریسر کا استعمال کرتے ہیں ، مگر کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔بجلی اور گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کے روزمرہ معمولات اور سارا کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے اور ملکی صنعت و معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کیلئے بجلی کے نئے منصوبوں کا آغاز اور نا مکمل منصوبوں کی تکمیل وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔امید کی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت 2018کے عام انتخابات سے قبل لوڈ شیڈنگ کے مستقل خاتمے کو یقینی بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرے گی۔

تازہ ترین