• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغربی ملک کی ایٹمی امور کی ماہر خاتون انیتا نیلسن نے شاید پہلی مرتبہ پاکستان کو سول ایٹمی ٹیکنالوجی کے تحفظ پر زبردست خراج تحسین پیش کیا، یہ معزز خاتون عرصہ دراز سے عالمی ایٹمی توانائی کے مرکز (IAEA) سے وابستہ رہی ہیں، انہوںنے کراچی میں ادارہ بین الاقوامی امور کی 70 سالہ اعلیٰ کارکردگی کی تقریب کے موقع پر کہا کہ پاکستانی ایٹمی انرجی کمیشن اِس معاملے میں انتہائی خوش قسمت ہے کہ اُن کے کسی پلانٹ میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا، اس نے ریڈیائی لہروں کو محفوظ رکھنے میں شاندار کامیابی حاصل کی، پاکستان نے اس سلسلے میں جو تحفظاتی نظام اور ہیکل اساسی عمارتیں تعمیر کر رکھی ہیں وہ اُن کو مانیٹر کرتی رہی ہیں اور اِس سلسلے میں اُن کی خوش قسمتی اور ان کی مہارت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جبکہ اپنے ماہرین کے لئے تربیت کا اہتمام بھی قابل تعریف حد تک اچھا کیا ہوا ہے، اس طرح وہ ایٹمی ہیکل اساسی کی تعمیر و تحفظ میں ایک لیڈر کا کردار ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے اور جو دوسرے ممالک کے لئے مشعل راہ ہے۔ کمیشن نہ صرف عالمی ایٹمی ادارہ بلکہ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک سے رابطہ میں بھی رہتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اِس ایٹمی میدان میں آنے والوں کی رہنمائی اور تربیت کرے۔ پاکستان اس وقت ایٹمی توانائی کی مشین دُنیا کو سپلائی نہیں کررہا ہے مگر وہ سمجھتی ہیں کہ وہ وقت دور نہیں کہ پاکستان ایسا کرنا شروع کردے اور ریڈیائی لہروں کے تحفظ کے معاملے کو دنیا بھر میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان اس میں حصہ ڈال سکتا ہے۔ پاکستان نے سول ایٹمی میدان میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اُس کو دنیا کی نظر میں لانے کے لئے نئی قسم کی کوشش کرنا پڑے گی۔ پاکستان کی اچھی صلاحیت دنیا کے امن کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہے، اگر ایٹمی بجلی گھر سے بجلی پیدا کرنے کے معاملے کو آپ محفوظ سمجھتے ہیں تو اس سے بڑی اور کیا بات ہوسکتی ہے کیونکہ یہ آلودگی نہیں پھیلاتی، جیسا کہ دوسرے ذرائع خصوصاً کوئلے سے بجلی بنانا، بجلی پیدا کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف سستا اور محفوظ ہے اور پاکستان اِس سلسلے میں مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اس پر سوال اٹھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شرکت پر امریکہ کیوں اِس کی راہ میں حائل ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی سپلائرز گروپ ایک مضبوط گروپ ہے، دُنیا کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کتنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے، دوسرے یہ کہ ایٹمی سپلائرز گروپ بہرحال ایک کلب ہے اور پاکستان چین کے ساتھ مل کر اس پر کام کررہا ہے، سول اور ملٹری پروگرام پر بھی بات ہوئی کہ پاکستان کے سول وزیراعظم نے ہی ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور سول وزیراعظم نے ہی ایٹمی دھماکہ کیا اور پھر پاکستان کے پاس ایٹمی کمانڈ اتھارٹی ہے جو ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں سویلین کردار اس طرح سے بڑھ جاتا ہے کہ اس اتھارٹی میں سویلین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ ہمارا سارا سول ایٹمی پروگرام IAEA پر نظر رکھتا ہے اور پاکستان اس کے ساتھ تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، بلکہ پاکستان نے عالمی ایٹمی توانائی کمیشن کے ہم پلہ قوانین بنا رکھے ہیں، پاکستان نے ایٹمی پروگرام پر نظر رکھنے کے لئے ایک ریگولر اتھارٹی بنا ئی ہوئی ہے جو بھارت ابھی تک نہیں بنا سکا ہے۔
ہمارا تحفظاتی نظام بھارت سے کہیں بہتر ہے مگر یہ جیوپولیٹیکل حالات ہیں جو پاکستان کو ایٹمی سپلائرز گروپ میں شامل ہونے سے روک رہے ہیں، اسی لئے پاکستان اپنا توازن کو برقرار رکھنے کے لئے چین سے جڑ گیا ہے۔ اسی طرح اس نے امریکہ سے بھی تعلقات بڑھائے تھے، پاکستان چین کے تعاون سے اب تک چار ایٹمی بجلی گھر چلا رہا ہے، چین نے بجلی گھروں کی مشینری سپلائی کی اور پاکستان اُن کو بہ حسن خوبی چلا رہا ہے، اسی طرح کراچی کے قریب پاکستان کا پہلا ایٹمی بجلی گھر جو کینیڈا کی مدد سے تعمیر ہوا تھا اور ایٹمی دھماکےکے بعد مئی 1998ء سے اس کا ایندھن اور پرزہ جات دینے بند کردیئے گئے تھے، ایندھن اور پرزہ جات خود پاکستان نے اپنے طور پر تیار کئے جس نے پاکستان کو بجلی گھروں کو چلانے کے اس مقام پر پہنچا یا ہے۔ محترمہ انیتا نیلسن نے پاکستان کی تعریف کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ہم اُن کے شکرگزار ہیں کہ مغرب میں بھی سچائی اور اخلاقی جرأت ہے کہ وہ سچ کو سچ کہہ سکیں او ر سیاست کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہ تمام سامعین اور پاکستانیوں کیلئے باعث تعجب ہے کہ موصوفہ نے پاکستان کے بارے میں حق گوئی سے کام لیا اور ساتھ ساتھ پاکستان کو دوسرے ممالک کیلئے مشعل راہ قرار دیا اور یہ مشورہ دیا کہ پاکستان کے بارے میں دنیا بھر میں منفی تاثر کو زائل کرنے کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان انتہائی جانفشانی سے اس میدان میں کام کررہا ہے اور وہ عالمی برادری سے تعاون کی پیش کش بارہا کر چکا ہے۔ اوباما کے دور میں دو سے زیادہ کانفرنسوں میں پاکستان کے وزیراعظم کو اسٹیج پر بٹھایا گیا جہاں پاکستان کے وزیراعظم نے ساری دنیا کے ممالک کو پاکستانی مہارت کی پیش کش کی۔ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن اپنے سائنسدانوں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کرتا ہے اور اس میں وہ کسی سفارش کو خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی وہ کسی کو رعایت دینے کا روادار ہے، وہ سختی سے اصولوں پر چل رہا ہے، وہ نہ صرف ایٹمی گھروں سے بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ تعلیم، زراعت اور صحت کے شعوں میں بھی کام کررہا ہے۔ کینسر جیسے مرض کا علاج بھی خوش اسلوبی سے کررہا ہے، اُس کے دو سینٹرز کراچی میں کام کررہے ہیں، ایک کرن کے نام سے جوکراچی یونیورسٹی کے قریب ہے ،دوسرا جناح اسپتال میں، اس کے علاوہ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایسے ہی اسپتال رات دن علاج و معالجے میں مصروف ہیں۔ پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے یہ کارہائے نمایاں جن کے آج لوگ معترف ہوگئے ہیں تاہم اس کی کارکردگی دنیا بھر سے منوانے کے لئے زیادہ کاوش کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین