لندن (پ ر) اوورسیز پاکستانیز ویلفیئر کونسل کے چیئرمین نعیم عباسی نقشبندی، مرکزی ترجمان پروفیسر مسعود اختر ہزاروی،چیف کوآرڈینیٹر حاجی عابد حسین، امجد ڈوگر، مجاہد حسین، چوہدری آفتاب اور شہناز پروین ، عمران حسین اور انجینئر فرخ نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اوورسیز پاکستانیز کمیونٹی چھ دہائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہے اور ان کی تیسری نسل یہاں پروان چڑھ رہی ہے۔ اب بھی کئی مسائل ایسے ہیں کہ ان کے حل کی طرف توجہ دینے کیلئے ارباب اختیار کے پاس شاید وقت نہیں ہے۔ اوورسیز کمیونٹی میں کچھ لوگ وہ ہیں جو بوجوہ نیکوپ کارڈز نہیں بنوا سکے جب اچانک غمی یا خوشی کے موقع پر پاکستان جانا پڑ جائے تو انہیں برطانوی پاسپورٹ پر ویزا کی ضرورت ہوتی ہے، جب ہائی کمیشن سے ویزا لگتا تھا تو فیس بہت کم تھی کچھ سال قبل برطانوی ہائی کمیشن نے ویزا کی ذمہ داری اپنے سر سے اتار کر ایک پرائیویٹ کمپنی کے حوالے کردی تھی۔105پونڈ سرکار لیتی ہے جب کہ30پونڈ کمپنی وصول کرتی ہے۔ یہ اوورسیز کمیونٹی کے ساتھ زیادتی ہے۔ یاد رہے کہ عموما ایمرجنسی کی حالت میں ہی ویزا کی ضروت پیش آتی ہے، اگر گھر کے چند افراد کو جانا پڑ جائے تو مالی لحاظ سے ٹکٹ کے ساتھ ویزا کی فیس ایک اضافی بوجھ ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اس کمپنی سے یہ ذمہ داری واپس لے کر اب ایک اور کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا ہے، یاد رہے کہ اب بھی ویزا ہائی کمیشن نے ہی لگانا ہوتا ہے۔یہ کمپنیاں سائلین سے دستاویزات لے کر ہائی کمیشن پہنچاتی ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ پاسپورٹ ایک حساس معاملہ ہے۔ ان دستاویزات کے دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں جانے سے کئی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں کچھ ایسے ممالک کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جن تک لوگوں کی ذاتی اور حساس معلومات کا جانا کسی بھی صورت ٹھیک نہیں۔ منی لانڈرنگ کیلئے بھی یہ دستاویزات استعمال ہو سکتی ہیں جو کہ قابل مذمت فعل ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ ہائی کمیشن کے پاس وسیع و عریض عمارت موجود ہے۔ اسی میں ویزا کیلئے اپنا عملہ تعینات کر کے یہ کام کیوں نہیں شروع کیا جاتا؟ لوگوں کیلئے آسانی پیدا نیز ویزا فیس انتہائی مناسب ہونی چاہئے۔ او پی ڈبلیو سی کے عہدیداروں نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سے اپیل کی ہے کہ اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دیں۔اس سلسلے میں اوور سیز کی نمائندہ تنظیمیں اگلے ہفتے پریس کانفرنس کرکے اس اہم مسئلہ کو اجاگر کریں گی۔