• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتجاج کے طریقہ کار پر احتجاج وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے…راشد ہاشمی

پوری دنیا میں احتجاج اور مظاہروں کا حق مسلمہ ہے تمام ممالک اپنے مروجہ قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے باسیوں کو احتجاج کا حق دیتے ہیں۔ کئی ممالک میں مظاہرین کے پاس ذیادہ حقوق ہیں اور کہیں کم’ اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں احتجاج کے طریقہ کار اور ضوابط مختلف ہیں کیونکہ وہاں آپ اپنی بات کا اظہار بلا خوف و خطر کرسکتے مگر وہاں بھی اس بات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ آذادئ اظہارِ رائے کی آڑ میں آپ کہیں لوگوں کو ملکی قوانین کے خلاف یا تشدد پہ تو نہیں اُکسا رہے’ دورانِ ااحتجاج آپ کیا کہہ رہے ہیں اس سے ذیادہ اہم یہ ہے کہ آپ کس انداز میں کہہ رہے ہیں اور آپ کے احتجاج کے باعث کہیں لوگوں کی روزمرہ زندگی میں خلل پیدا تو نہیں ہورہا۔ برطانیہ میں اگر آپ کوئی احتجاج یا مارچ منعقد کرنا چاہتے ہیں تو پولیس کو مارچ کی تاریخ’ وقت’ روٹ اور آرگنائزیشن کا نام پتہ بتانا ضروری ہوتا ہے اور پولیس کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو جگہ تبدیل کردے’ ریلی کا دورانیہ کم کردے’ شرکاء کی تعداد کم کردے اور تو اور اگر دھرنہ یا احتجاج سڑک پہ ٹریفک یا عوامی گزرگاہوں پہ عوام کی آمدورفت کو متاثر کرتا ہے تو پولیس اس دھرنے کو روک بھی سکتی ہے۔ یہ تو تھے احتجاج اور دھرنوں کے کچھ اصولوں ضوابط جو دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہیں۔ اب آتے ہیں وطنِ عزیز کی طرف جہاں آئے دن سڑکیں اور مشہور شاہراہیں بلاک رہتی ہیں کبھی فلاں سیاسی پارٹی کا احتجاج ہے تو کبھی دوسری پارٹی دھرنہ دیئے بیٹھی ہے۔ کبھی کسان تو کبھی معذور’ استاتذہ’ کلرک اور اکثر و بیشتر مذہبی جماعتیں اور ینگ ڈاکٹرز بھی اپنا حقِ آذادئ رائے استعمال کرنے کے لئے سڑکوں اور چوکوں کو بلاک کئے ہوتے ہیں۔ معاشرے کے ایک فرد کی حثیت سے ہر کسی کو کچھ نہ کچھ مسائل اور شکایات کا سامنا رہتا اور اکثریت کو ان مسائل کے اظہار کے لئے اختیار کئے گئے پاکستانی طریقے سے شکایت رہتی ہے کہ جب دھرنے اور احتجاج کے باعث سڑکوں کو اگر بلاک کر دیا جائے گا تو لوگوں اپنے دفاتر’ طلباء سکولوں کالجوں’ مریض ہسپتالوں کو کیسے پہنچیں گے۔ ڈاکٹرز جو کہ معاشرے کا پڑھا لکھا ترین طبقہ سمجھا جاتا ہے مگر جب احتجاج کی باری آتی ہے تو لگتا ہے تعلیم بھی ان کی اخلاقی نشونما نہ کرسکی’ میرے کہنے کا قطعا یہ مقصد نہیں کہ ڈاکٹرز کو احتجاج کا حق نہیں مگر خدارا اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر آپ اپنے احتجاج سے عوامی حمایت حاصل کرسکتے ہیں نہ کر واڈز کو تالے لگا کر سڑکوں پہ نکل آئیں اور مریض ہسپتال بند اور عوام سڑکیں بند ہونے کے باعث ذلیل ہوں۔ یقین کیجئے ڈاکٹر حضرات اگر کالی پٹی بازو پہ باندھ کر ڈیوٹی پہ جائیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں’ عوام کی نظر میں ان کی عظمت میں مزید اضافہ ہو۔ اس موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ تب ہوا کل جب ایک معروف واٹس اپ گروپ میں ایک انتہائی متحرک دوست کا دن کے وقت غالبا آٹھ دس گھنٹے تک کسی میسج کا جواب نہ دیا تو کچھ دوستوں میں حقیقتاً اور کچھ میں مذاقاً یہ سوچ آئی کہ موصوف کدھر غائب ہیں آج’ کچھ عرصے کے بعد ان کا گروپ میں میسج آیا کہ سیالکوٹ سے اسلام آباد جارہا ہوں اور آٹھ گھٹنے گزر چکے ہیں اور ابھی آدھ راستے میں ہیں جب کہ عام حالات میں یہ راستہ کل ملا کر چار گھنٹے کے لگ بھگ ہوگا’ میرے استفسار پہ ایک دوسرے دوست نے بتایا کہ دھند اور سموگ تو گذشتہ روز کی بارش کے باعث جاتی رہی یہ تاخیر مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے باعث ہے جس نے جڑواں شہروں کے باسیوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے’ میرے خیال میں یہ ایک مناسب وقت ہے کہ اپوزیشن اور حکومت مل کر احتجاج اور دھرنوں کے کم از کم اصول و ضوابط طے کرلیں کیونکہ کل کی اپوزیشن آج کی حکومت اور آج کی حکومت کل کی اپوزیشن ہوتی ہے لہذا مل بیٹھ کر تمام شراکت دار یہ طے کر لیں کہ ان کے احتجاج سے عام الناس کو تکلیف نہ ہو’ احتجاج کریں ضرور کریں مگر کوئی گراؤنڈ یا جلسہ گاہ مختص کرلی جائے تاکہ باقی افراد’ خصوصاً علاقہ مکینوں کے روز و شب متاثرہ نہ ہوں۔ لندن میں فروری دو ہزار تین میں “ملین مارچ” کا انعقاد کیا گیا جس میں عینی شاہدین کے مطابق ایک ملین سے زائد بچے’ بوڑھے’ نوجوان فروری کی سخت میں لندن کے ٹریفالگر اسکوائر کے گرد و نواح جمع ہوئے اور عراق جنگ کے خلاف اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کروایا اور منتشر ہوگئے اور ایک پتہ تک بھی نہ ٹوٹا۔ ہم لوگوں کو نہ جانے کب اس بات کی سمجھ آئے گی کہ توڑ پھوڑ’ مار دھاڑ احتجاج کا حصہ نہیں’ ایسا کرکے ہم نہ صرف عوامی سطح پہ اپنے موقف کی حمایت کھو دیتے ہیں بلکہ املاک کو نقصان پہنچا کر قانون شکنی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔

تازہ ترین