• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ آپ مذہب میں پائی جانے والی غلط ریت و رواج ، غلط نظریات کو پھیلانے والوں اور ملائوں کی طرح فتوے جاری کرنے والوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتے۔میرا موقف یہ تھا کہ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اسے مذہبی علمااور عالموں پر ہی چھوڑ دینا چاہئے۔1986سے میں نے باقاعدہ لکھنا شروع کیا، میں نے صرف اور صرف سیاست،انسانی حقوق اورکرنٹ افیئرز پر ہی لکھاہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اور میرے بڑے بھائی مذہبی بدعتیں پھیلانے والوں اور مذہب کے نام پر استحصال کرنے والوں کے سخت مخالف رہے ہیں۔موقف یہ ہونا چاہئے کہ ایک مسلک سے ہی وابستہ رہ کر انقلاب لایا جائے ناکہ ایک نئے فرقے کو جنم دیا جائے ۔کلیسیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں گریک آرتھوڈوکس اور رومی کاتھولک تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ کلیسیا میں بہت سی غیر مذہبی قباہتیں آگئی تھیں۔شروع میںبائبل مقدس صرف لاطینی زبان میں تھی اور عام آدمی کو پڑھنے کی اجازت نہیں تھی ۔صرف پریسٹ ہی پڑھتا تھا اور لوگوں کو سناتا تھا۔بائبل کا پہلا ترجمہ بھی جرمن زبان میں ہوا۔مارٹن لوتھرجس کا تعلق جرمنی سے تھا وہ خود ایک پریسٹ تھا۔اس نے اس بات کے خلاف احتجاج کیا جس پر تمام پریسٹز نے اْسکی سخت مخالفت کی۔جس سے پروٹیسٹنٹ فرقے کا آغاز ہوا۔مگر حقیت یہ ہے کہ مارٹن لوتھر کبھی بھی کلیسیا میں تقسیم نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی کوئی نیا فرقہ بنانا چاہتے تھے۔وہ تو کلیسیامیں رہ کر ہی کلیسیا کے اندر انقلاب لانا چاہتے تھے۔مسیح کی اصل تعلیم سے روشناس کروانا چاہتے تھے۔ ان کی موت کے بعد بہت سے فرقوں نے جنم لیا ۔ بہت سی کالی بھیڑیںمذہب میں گھس آئیں۔جنہوں نے جگہ جگہ اپنی دکانیں کھول لیںاور اپنا اپنا سودا بیچنے کے لئے مختلف لیبل لگا کر لوگوں کی اٹریکشن کے لئے نئی نئی قسم کی تعلیم دیناشروع کر دی ۔ آج خادمین ِکلیسیا دنیا کی ہر آرائش وزیبائش سے آراستہ ہیں۔اس تقسیم نے مذہبی یکجہتی کو صرف نقصان پہنچایا ہے۔حقیقت بڑی تلخ ہے۔جس کا تجربہ ان بدعتوں اور استحصال کے خلاف آواز اٹھا نے والے کر چکے ہیں۔چرچ کا اتنا سخت نظام ہے کہ اس سے ٹکرانے والا خود ہی لہولہان ہو جاتا ہے مگر چرچ کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔جب انگریز پاک و ہند سے واپس اپنے ملک چلے گئے تو اپنی ساری پراپرٹی اور عوام کی فلاح و بہبود کے تمام ادارے لوکل مشنریوں کے حوالے کر گئے۔اسی طرح بہت سے غیرملکی مشنریوں نے ہندو پاک میںآکر بشارتی کاموں کے ساتھ ساتھ تجارتی اور غیر تجارتی سکولز اور ہسپتال بھی کھولے اور عوام کی جہالت کو دور کرنے اور طرح طرح کی بیماریوں کے علاج کے لئے ہسپتال بھی قائم کئے۔جب تک یہ غیر ملکی مشنری رہے جو انسانی خدمت سے بھر پور تھے۔نظام بہترین چلتا رہا۔ ان کے جاتے ہی یہ سب کچھ مقامی مشنریوں کے ہاتھ میں آ گیا اور پھرلوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔مشنری جائیدادیں بکنے لگیں ۔ مشنریوں نے اس مقدس مذہبی فریضے کو کارو بار بنا لیا ۔اور کار کوٹھی اے سی سب کچھ انہیں میسر آگیا۔مذہب اور انسانی خدمت کی جگہ اقربا پروری نے لے لی۔نوجوانوں نے مارٹن لوتھر کی طرح احتجاج بھی کیا ۔کہ مستحق مسیحیوں کے لئے فیسوں میں کمی کی جائے اور انگلش میڈیم سکولوں میں عام داخلے کا مطالبہ بھی بار ہا کیا۔مگر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ الٹی مخالفت مول لے لی۔غریب ملکوں سے آئے ہوئے مشنریوں نے اپنے لئے عالی شان محل تو بنا لئے مگر غریبوں کے لئے کچھ نہ کیا ۔بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی ڈونیشن لینے پر زور رکھا۔اور ہمارے سیاسی نمائندوں نے بھی اپنے ترقیاتی فنڈکا بڑا حصہ مشنریوں کی عمارات کی تعمیر و مرمت پرہی صرف کیا۔مگر اسکے خلاف آواز کون اٹھائے گا۔سچ تو یہ ہے کہ اگرکوئی بھی باشعور عام آدمی (لے مین) ان کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا تو یہ مرض کینسر کے پھوڑے کی طرح سارے جسم میں سراہیت کر جائے گا۔اور ایک دن یہ مسیحی علماء پوری دنیا میں مذہب کی بدنامی کا باعث بن جائیں گئے۔ جس طرح اسلام کو بدنام کرنے میںطالبان ،القاعدہ ،داعش اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہی مذہبی تنظیمیں مذہبی فوبیا کاموجب بن رہی ہیں ۔سیاست ،سیاسی ایوانوں اورسیاست دانوں سے نکل کر مذہبی جماعتوں اور مذہبی علماء میں سراہیت کر گئی ہے اوران مذہبی جماعتوں نے حکومتی امور میں بے جامداخلت کر نا شروع کردی ہوئی ہے۔ ایسا کوئی بھی قانون یا عمل ان کی نظر میں اسلام کے منافی ہے۔احتجاج اور دھرنے تو جیسے روز کا معمول بن گئے ہیں۔لوگوں کی اچھی خاصی چلتی زندگی میں رکاوٹ ڈالنے کا باعث ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔ مظاہرین مصر ہیں کہ وفاقی وزیر قانون استعفی دیں۔جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ پہلے دھرنا ختم کریں تو پھر ان کی درخواست سنی جائے گی۔عوام کی مشکلات کے پیشِ نظرعدلیہ نے تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا ہے کہ دھرنے کے باعث سڑکیں بند ہونے سے عوام کافی مشکلات کا شکار ہیں لہٰذا مظاہرین قانون کا احترام کرتے ہوئے دھرنا ختم کر دیں دھرنا دینے والی جماعتوں کو عدلیہ کے احکامات اور عوامی مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ نکالنا چاہئے۔کیونکہ اس احتجاج کا اثرسب پر پڑ رہا ہے اور اس کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ اب اس احتجاج کو پْرامن طور پر ختم کر دیا جائے۔

تازہ ترین