• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھرنا بلاجواز،محاذ آرائی کی سیاست مناسب نہیں ہے، تجزیہ کار

کراچی(ٹی وی رپورٹ)دھرنا بلاجواز،گالی گلوچ و احتجاجی سیاسی کلچر افسوسناک ہے،عدالتیں کبھی جلسے جلوسوں سے متاثر نہیں ہوتی،عدلیہ کو ٹارگٹ کرنا جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوگا،ن لیگ مشکل وقت سے گزر رہی ہے اس صورتحال میں قیادت کیلئے کارکنوں کو حوصلہ دینا ضروری ہوتا ہے،احتجاج کرنے کا حق سب کو ہے لیکن وہ دوسروں کے نقل و حرکت کے حق کو محدود نہیں کرسکتا۔ان خیالات کا اظہار رہنما پیپلز پارٹی نیئر حسین بخاری، ن لیگ کے رہنما امیر مقام ،سینئر تجزیہ کار زاہد حسین،سینئر تجزیہ کار افتخار احمد،سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی اور سینئر تجزیہ کار و اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انجینئر امیر مقام نے کہا کہ نواز شریف کا سب سے بڑا اثاثہ عوام اور ن لیگ ہے، لیگ کو عوامی رابطہ مہم کا سیاسی فائدہ ہوا ہے۔زاہد حسین نے کہا کہ دھرنا دینے والوں کے پاس کوئی جواز موجود نہیں ہے، کسی غلطی کے فوری تدارک کے باوجود اس معاملہ پر پرتشدد احتجاج کا کسی کو حق نہیں ہے۔افتخار احمدنے کہا کہ گالی گلوچ اور احتجاج سیاسی کلچر کا حصہ بننا افسوس کی بات ہے، پاکستان میں جو جنگ شروع کردی گئی ہے اس پر قابو نہ پایا گیا تو پورا ملک اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ اسلام آباد دھرنے کے معاملہ کو قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھایا جانا چاہئے، حکومت ممکنہ ہلاکتوں کے پیش نظر دھرنے کے خلاف ایکشن نہیں کرنا چاہے گی۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، تمام ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ماضی سے سیکھنا چاہئے۔نیئر بخاری نے کہا کہ نواز شریف جلسوں کے ذریعے اپنی مقبولیت ظاہر کرناچاہتے ہیں، نواز شریف کو سمجھنا چاہئے کہ عدالتیں کبھی جلسے جلوسوں سے متاثر نہیں ہوتی ہیں، جو عدالتیں ان سے متاثر ہوجائیں وہ پھر عدالتیں نہیں ہوتیں، نواز شریف سپریم کورٹ کی طرف سے بارہا موقع دیئے جانے کے باوجود اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرسکے، ، کسی جرم کا فیصلہ عوام نہیں آئین و قانون کے مطابق عدالتیں کرتی ہیں، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق نواز شریف کو نااہل قرار دیا، نواز شریف فیصلہ پڑھ لیتے تو پتا چلا جاتا انہیں کیوں نکالا گیا۔نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا تصادم کی راہ اختیار کرنا اور اداروں کو بدنام کرنا جمہوریت کے حق میں نہیں ہے، عوام کے پاس جانا ان کا حق ہے لیکن محاذ آرائی کی سیاست مناسب نہیں ہے، جلسوں سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ واپس نہیں ہوسکتا، آئین پارلیمنٹ میں بھی ججوں کے بارے میں گفتگو کرنے سے اجتناب کرنے کا کہتا ہے، ۔انجینئر امیر مقام نے کہا کہ ن لیگ مشکل وقت سے گزر رہی ہے اس صورتحال میں قیادت کیلئے کارکنوں کو حوصلہ دینا ضروری ہوتا ہے ، نواز شریف کا سب سے بڑا اثاثہ عوام اور ن لیگ ہے، عوام نے اپنا مستقبل نواز شریف کے ساتھ جوڑ دیا ہے، نواز شریف عوام میں جاتے ہیں تو کارکنوں اور خود انہیں بھی حوصلہ ملتا ہے، ن لیگ کو عوامی رابطہ مہم کا سیاسی فائدہ ہوا ہے، نواز شریف بے شک وزیراعظم نہیں رہے لیکن عہدے پر ان کا نمائندہ موجود ہے۔ سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ دھرنے کے باعث مفلوج اسلام آباد ملک میں لاقانونیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، یہاں پارلیمنٹ اور عدلیہ کی کوئی حیثیت نظر نہیں آرہی ہے، دھرنا دینے والوں کے پاس کوئی جواز موجود نہیں ہے، کسی غلطی کے فوری تدارک کے باوجود اس معاملہ پر پرتشدد احتجاج کا کسی کو حق نہیں ہے، حکومت کو کسی صورت مظاہرین کو سڑک بند کرے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی، نیشنل ایکشن پلان اور دیگر قوانین میں نفرت انگیز تقاریر اور نفرت کی بنیاد پر کوئی سیاسی جماعت بنانے کی گنجائش نہیں ہے، ایک ایسی جماعت جس کی بنیاد نفرت پر ہے اسے کیسے سیاسی جماعت بننے اور الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ اسلام آباد دھرنے کے معاملہ کو قومی سلامتی کمیٹی میں اٹھایا جانا چاہئے، حکومت ممکنہ ہلاکتوں کے پیش نظر دھرنے کے خلاف ایکشن نہیں کرنا چاہے گی ،اسلام آباد کا حالیہ دھرنا ایسی وجہ پر دیا جارہا ہے جو موجود نہیں ہے، جو بھی شکایت تھی وہ رفع ہوچکی اس لئے اب دھرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا، حساس معاملہ پر دھرنے کو بہت احتیاط سے ڈیل کرنے کی ضرورت ہے، تمام ریاستی ادارے یکسو ہو کر دھرنا ختم کروانے کیلئے اقدام کریں، اگر فوج کو بھی طلب کرنا پڑے تو کرنا چاہئے، فوجی دستہ آنے کے بعد یہ لوگ ٹھہر نہیں سکیں گے۔مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ ریاست خود دھینگا مشتی میں مصروف ہے، ریاست میں بحرانی صورتحال نظر آتی ہے، دھرنا دینے والے گروپ نے سیاست میں فرقہ وارانہ سوچ کے تحت حصہ لینا شروع کیا، ان کا رخ سیاست کی جانب کس نے موڑا یہ بڑا سوالیہ نشان ہے، یہ لوگوں کے جذبات بھڑکا کر اس حد تک مشتعل کررہے ہیں کہ وہ دوسروں پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ دھرنے سے سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک جڑا ہوا ہے، احتجاج کرنے کا حق سب کو ہے لیکن وہ دوسروں کے نقل و حرکت کے حق کو محدود نہیں کرسکتا ، ریاست عوام کے اس حق کے تحفظ میں ناکام نظر آرہی ہے، ریاست بلوچستان سے وزیرستان تک امن کا دعویٰ کرتی ہے مگر حال یہ ہے کہ پنڈی سے اسلام آباد نقل و حرکت ممکن نہیں ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہئے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، تمام ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ماضی سے سیکھنا چاہئے، ماضی میں بھی آگ لگی تو ہر سیاسی جماعت اور ادارے کے گھر تک آئی تھی،ابھی اس آگ کو سرجوڑ کربیٹھ کر روک لیں ورنہ سب اس کو بھگتیں گے، تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو سیاست پیچھے رکھ کر اس مسئلہ کو دیکھنا چاہئے۔میزبان طلعت حسین نے اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گالی، بدخوئی،بدزبانی اور بہتان تراشی کا رجحان بڑھتا نظرا ٓرہا ہے، سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں دھرنے پر بیٹھے لوگ جو گالیاں دے رہے ہیں ان کے کلپس موجود ہیں، گالی کی یہ روایت سیاست کے بعد صحافت میں بھی داخل ہوچکی ہے، آج کل ایک اینکر اور چینل دست و گریباں ہیں، اینکر کہہ رہا ہے میں نے جو بھی غلاظت بولی وہ چینل نے مجھ سے کہلوائی، چینل کہہ رہا ہے آپ نے غلاظت کے انبار خود لگائے، اینکر کہہ رہا ہے چینل کو بند ہوجانا چاہئے، چینل کہہ رہا ہے اینکر کا پروگرام بند ہونا چاہئے، حقیقت یہ ہے کہ دونوں نے مل کر غلاظت اور الزام تراشی کے انبار لگائے، جھوٹ کی کہانیاں چلائیں، انہوں نے کس کس کی عزت نہیں اچھالی، کس کس پر حملے نہیں کیے اور کیسی کیسی زبان استعمال نہیں کی لیکن اب دونوں صاف ہونے کی کوشش کررہے ہیں، یہ صرف دو نہیں ہیں بلکہ اس طرح کے اور بھی بہت سے ہیں جو ایسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں بس ان کا عقدہ ابھی تک لوگوں کے سامنے نہیں کھلاہے۔
تازہ ترین