• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان، پریشان ہے! خصوصی تحریر…کاشف شمیم صدیقی

ہمارے ملک میں بہت کم لوگ ہی ایسے ہوں گے جو پرسکون اور مطمئن زندگی گزار رہے ہوں! ’’پریشانیاں‘‘ ہر نفس کے گرد گھیرا تنگ کیے ہوئے ہیں۔ چھوٹے، بڑے، بچے، بوڑھے، عورت، مرد سب پریشان نظر آتے ہیں اور کیوں نہ ہوں… ماحول ہی ایسا بن چکا ہے۔ نوجوان اچھے مستقبل تو کانٹریکٹ ملازمین ’’مستقل‘‘ ہونے کیلئے پریشان ہیں۔ برسراقتدار کرپشن کے الزامات میں پھنسنے تو بے روزگار "Frustration" کے عذاب سے بچنے کی فکر میں پریشان ہے۔ غریب چینی کیلئے تو امیر چینی کی فیکٹریاں لگانے کے تفکر میں مبتلا ہے۔ کوئی ’’نیند‘‘ نہ آنے تو کوئی ’’دیر تک‘‘ سوتے رہنے کی وجہ سے پریشان ہے۔ غرضیکہ جس نوعیت کی شخصیت اس طرز کی پریشانی!
’’عرفان بھی آج کل بہت پریشان ہے‘‘۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عرفان کون ہے…؟ وہ ایک عام پاکستانی ہے لیکن وطن عزیز سے محبت کے جذبے نے اسے بہت ’’خاص‘‘ بنا دیا ہے۔ اچھا اخلاق اور دردمند دل رکھتا ہے۔ ملکی معاملات پر گہری نظر ہے اس لئے جب کبھی ’’پاکستان‘‘ تکلیف میں ہوتا ہے تو وہ بھی افسردہ ہوجاتا ہے۔ وطن کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن بے بس ہے، عام آدمی جو ٹھہرا، لیکن ہمت نہیں ہاری، بچوں کی ایک عالمی تنظیم سے وابستہ ہوکر، کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی طور، اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ بچوں کے حوالے سے 20نومبر کو منایا جانے والا Children's Day اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں کے حقوق پر بات کی جاتی ہے۔ ان کے مسائل، تکلیفات اور زندگی سے جڑی پریشانیوں کو زیربحث لایا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بچوں کی ترقی اور کامیابیاں Celebrate کرتے نظر آتے ہیں جبکہ پسماندہ ممالک بچوں کی پسماندگی، وجوہات اور خاتمے کی تدابیر پر بات کو، موضوع بحث بناتے ہیں۔ بچے جو ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں، رہتے چاہے شہر میں ہوں یا پھر دور دراز کے کسی گائوں، دیہات میں، تکلیف میں ہوں تو ہر حساس دل ’’بھر‘‘ آتا ہے۔ ماں، باپ اپنے بچوں کو دیکھ دیکھ جیتے ہیں، ان کا جینا مرنا صرف اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔ خوشیاں اور کامیابیاں جو وہ خود حاصل نہ کرسکے، اپنے بچوں کو دلوانے کیلئے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ اور پھر جب وہی بچے ان کی آنکھوں کے سامنے تڑپ، تڑپ کر مرجائیں تو ’’دلوں‘‘ پر کیا گزرتی ہوگی؟ عرفان کی پریشانی کی وجہ بھی کچھ ایسی ہی تکلیفیں ہیں۔ ہر دردمند دل رکھنے والا باپ اس دکھ کو سمجھ سکتا ہے۔ پھر عرفان تو آئے دن ان آزمائشوں کو رونما ہوتے دیکھتا ہے، وہ کیسے اس تکلیف دہ صورتحال سے خود کو الگ رکھ سکتا ہے۔پاکستان میں بچوں کی اموات کی نمایاں وجوہات میں غربت، پسماندگی اور بیماریاں سرفہرست ہیں۔ ’’بیماریاں‘‘ جو نہ صرف غربت زدہ علاقوں بلکہ ملک کے ترقی یافتہ شہروں میں بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ بیماریوں کے تحت ہونے والی اموات کی ایک اہم وجہ والدین میں اس شعور کی بھی کمی ہے کہ بیمار بچوں کو ہسپتال لے جاکر صحیح طور پر علاج کروایا جائے۔ بالخصوص دیہاتی زندگی میں مسئلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ لوگ وہاں گھر کو ہسپتال کا درجہ دے دیتے ہیں جہاں صحت یابی تو نہیں لیکن زندگی سے جھٹکارا ضرور مل جاتا ہے۔ پسماندگی کا شکار یہ عوام صحتمندانہ زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ہیں۔ ان کے صبح و شام بنیادی ضروریات زندگی کے حصول میں ہی تمام ہوجاتے ہیں۔ سماجی اور معاشرتی ناانصافیوں کا شکار یہ لوگ زندگی کی خوبصورتی کو کبھی محسوس ہی نہیں کرپاتے۔ دنیا و جہاں سے بے خبر بہت سے تو ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے گائوں سے قریب ترین ہسپتال یا کلینک کی موجودگی کا علم نہیں۔ ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہر سال بچوں کی اموات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور پاکستان سائوتھ ایشین ممالک میں Child Mortality Rate کے حوالے سے نمایاں ہے۔
بقول عرفان "Rural Communities" میں صحتمندانہ زندگی کے شعور کو اجاگر اور انہیں "Mobilize" کرکے اس مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسے بچے جو Sexual Harassment کا شکار ہیں، بے گھر ہیں، تعلیم سے دور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ ایسی مربوط اور موثر پالیسیز بنائی جائیں جو ان سنگین مسائل کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوں۔ اے کاش جو سوچ عرفان کی ہے وہ ان لوگوں کی بھی ہوتی جو ان حالات کے ذمہ دار ہیں یا پھر وہ جو اس سلسلے میں بہت کچھ کرسکتے ہیں، لیکن کر نہیں رہے! یقیناً ہمارے معاشرے میں عرفان اور عرفان جیسے کئی دوسرے لوگ موجود ہیں جو نیک نیتی سے اپنا سماجی کردار ادا کررہے ہیں۔ ضرورت سب کے ساتھ مل کر چلنے کی ہے! بحیثیت مجموعی کی گئی جدوجہد مستقبل کے ان معماروں کی زندگی کو کامیاب، محفوظ اور خوبصورت بناسکتی ہے۔

تازہ ترین