• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان، پولیس چوکیوں پر طالبان کا حملہ، 11 اہلکار ہلاک

کابل (نیوز ڈیسک) افغانستان میں طالبان کے ایک خونریز حملے میں گیارہ پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ اتوار کے دن یہ کارروائی مغربی افغانستان میں کی گئی۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کی صبح طالبان جنگجوؤں کے ایک گروہ نے فراہ صوبے کے ضلع فراہ رود میں پولیس کی تین چیک پوسٹوں پر حملہ کر دیا۔ پولیس کی یہ چوکیاں مرکزی بازار میں قائم ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ طالبان نے یہ حملہ منظم انداز میں کیا۔طبی حکام نے گیارہ ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آٹھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ چار ابھی تک لاپتہ ہیں۔ فراہ صوبے کی کونسل ممبر جمیلہ امینی نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ طالبان ان پولیس چوکیوں کو نذر آتش کرنے کے بعد فرار ہوئے۔دوسری طرف صوبائی گورنر کے ترجمان محمد ناصر مہری نے کہا ہے کہ اس طالبان کے اس حملے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی اہلکاروں نے طالبان کے اس حملے کو ناکام بنا دیا اور اس دوران آٹھ جنگجو ہلاک اور چھ زخمی بھی ہوئے۔ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں افغان پولیس فورس کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حالیہ عرصے کے دوران طالبان نے افغانستان بھر میں اپنی پرتشدد کارروائیوں میں تیزی پیدا کر دی ہے اور بالخصوص صوبہ فراہ میں سکیورٹی فورسز کا نشانہ بنانے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔رواں ہفتے کے دوران منگل کو بھی طالبان نے قندھار اور فراہ صوبے میں واقع متعدد پولیس چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں 37 افغان سکیورٹی فورسز مارے گئے تھے۔ بالخصوص رات کے وقت ان چیک پوائنٹس میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔سکیورٹی کی اسی مخدوش صورتحال کی وجہ سے نیٹو نے افغانستان میں اضافی فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ غیر ملکی فوجی افغان فورسز کو مشاورت اور تربیت کے منصوبہ جات پر عمل پیرا ہوں گے۔دریں اثناءافغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ افغان اور غیر ملکی اسپیشل فورسز نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان کی جیل پر چھاپہ مار کر کم از کم 30 افراد کو بازیاب کروا لیا ہے،طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جن افراد کو بازیاب کروایا گیا ہے وہ جرائم پیشہ عناصر تھے اور انہیں ڈکیتی، اغوا، ذاتی دشمنی اور ان الزامات کے تحت حراست میں رکھا گیا تھا اور ان کے مقدمات کی ابھی سماعت ہونا باقی تھی،طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے ایک بیان میں کہا کہ جیل میں کوئی ایسا شخص بند نہیں تھا جس کا تعلق دشمن سے تھا اور (جہاں انہیں رکھا گیا) وہاں مناسب سیکورٹی نہیں تھی،افغان فوج اور صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جن افراد کو طالبان کی قید سے بازیاب کروایا گیا ان میں 12 سال سے کم عمر چار بچے اور دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، ان میں 20 افراد وہ تھے جنہیں طالبان نے حکومت کی مدد کرنے یا ان کے خاندان کے کسی فرد کا تعلق افغان فوجیوں یا پولیس اہلکاروں سے ہونے پر یرغمال بنا رکھا تھا۔
تازہ ترین