• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فری کشمیر یا پھر فری بلوچستان…؟ گورکھ دھندا… ابرارقریشی

اپنے حق کے لیے آواز اٹھانایا کسی کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کرنا ہوتو اس حصول کیلئے موجودہ دور میں ہر طرح کی آسانیاں ہیں اور اس کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک ایسا آلہ بن چکا ہے جو ہر اچھی اور بری بات کا موجب ہے الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا پر نشر، شائع ہونے والی ہر خبر سوشل میڈیا کا حصہ بنتی ہے اور اس کی وجہ سوشل میڈیا کی اپنی ایک اہمیت ہے اور سوشل میڈیا پر ہر ایک فرد کو دسترس حاصل ہے۔اور اگر دیکھا جائے تو دنیا کے بڑے بڑے نشریاتی ادارے سوشل میڈیا کی خبروں کا سہارا لیتے ہیں اور عوام، ملک ادارے اپنے پیغابات و جذبات کا اظہار سوشل میڈیا ہر ہی کرتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے یا کسی کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کیلئے نیا طریقہ کار بھی ایجاد ہو چکا ہے اور وہ کیا ہے؟ آج اس پر بات کرتے ہیںایک اہم موضوع پر لکھنے سے قبل سوشل میڈیا کی آفادیت بیان کرنا بھی لازم تھا جو کہ آج کے موضوع کی صیح عکاسی کرے گا چند ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے اندر مختلف بسوں اور ٹیکسیوں پر فری بلوچستان مہم چلائی گئی اس سے قبل جنیوا میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملا ہے اور لندن میں جب فری بلوچستان مہم شروع ہوئی تو پہلی مرتبہ یہ دیکھنے کو ملا کہ پاکستان نے اسلام آباد میں برطانوی سفارتخانے میں موجود سفیر کو سمن بھیج کر طلب کیا اور اگر یہ عمل پاکستان کرے تو اس ایک بڑا جرأت والا عمل کہا جاتا ہے ۔ فری بلوچستان مہم کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ بھارتی میڈیا نے ہی اٹھایا ہے اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے یہ مہم بھارت کی جانب سے شروع کی گئی ہے جس کے مقاصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے اس کے علاوہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے برطانیہ اور یورپ کے ممالک میں آباد افراد بھی اس کا حصہ ہیں بالخصوص بلوچستان سے تعلم کی غرض سے برطانیہ آنے والے طالبعلم اور دیگر افراد بھی بھارت کے اس ایجنڈے کی تکمیل کا حصہ بنے اور بن رہے ہیں اور بعض ایسے افراد کو اس فعل میں شامل کیا گیا ہے جو بے نام ہی نہیں بلکہ اردو زبان تک نہیں جانتے اور نہ ہی شکل و عقل سے پاکستانی لگتے ہیں اور انہیں اس کے بدلے میں کیا فائدہ ہوتا ہے یہ ایک نہ صرف طویل موضوع ہے کہ اس کا تعلق حقیقت سے نہیں ہے کہ وہ پاکستان مخالف ہیں بلکہ نظریہ ضرورت اور مجبوری یا پھر غداری بھی ہو سکتا ہے۔ خیر بھارت یا دوسری پاکستان مخالف قوتوں کی کوششیں اپنی جگہ ہیں مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے اور اس کے بدلے میں ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ یہ درست ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کو برطانیہ سمیت یورپ اور باقی دنیا میں لوگ اتنا نہیں جانتے جتنا کہ کشمیر ایشو کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں مسئلہ کشمیرجو کہ ستر سال پرانا حل طلب ایک ایسا ایشو ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں درج ہونے سمیت پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اور پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی صرف برطانیہ میں ایک ملین سےزائد آباد ہیں اسی طرح یورپین ممالک کے اندر بھی ان کی خاطر خواہ نمائندگی موجود ہے۔ فری بلوچستان مہم جنیوا کے بعد اب لندن میں جاری ہے اس سے پر بڑی رقم خرچ ہورہی ہے جبکہ ہم پاکستانی و کشمیری اگر اس کا توڑ کرنا چاہیں یا اپنے مسئلہ کشمیر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کربنا چاہیں تو ہمیں فری بلوچستان طرز کی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حکمت عملی اپنانے کی ضرروت ہے اور اس میں ہمیں کوئی بڑی مالی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں تقریباٗ بارہ لاکھ کشمیری وپاکستانی کمیونٹی آباد ہے اور ان میں میں سے کم از کم سترفیصد ایسے افراد ہیں جن کاروزگار اورپیشہ ٹیکسی ہے اور اس کے ساتھ ہر ایک گھر میں گاڑی نہیں بلکہ گاڑیاں موجود ہیں اور کشمیر کی وہ بڑی تنظیمیں جو ملین مارچ سمیت دیگر مظاہرے کرتے آئے ہیں وہ چاہیں تو پاکستانی و کشمیری ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کر کے فری کشمیر اور we Love Balochistan کے نام سے پوسٹر بنا کر انھیں دے دیں جو اپنی اپنی گاڑیوں پر لگا کر برطانیہ بھر کے شہروں گلی محلوں میںگھوم سکتے ہیں اور اس پر کوئی قانونی عار بھی نہیں ہو سکتی اور اس کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے یورپ اور اس کے بعدامریکہ سمیت دیگر ممالک کا رخ کیا جائے یہ کام دراصل ہمارے سفارتخانوں کے کرنے کے ہوتے ہیں مگر بطور قوم بھی ہماری کوئی ذمہ داری اور فرض بھی ہے اور ہر ایک پاکستانی کشمیری اپنے آپ میں وطن کا سفیر ہے۔ دشمن کی جانب سے بعض اوقات ایسا عمل دیکھنے کو ملتا ہے جس سے نقصان کم اور فائدہ زیادہ اٹھایا جا سکتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کشمیری ستر سال سے بھارت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ بھارت الٹا ایک پاکستان کے ہی صوبے بلوچستان کی آزادی کی بات کر رہا ہے اور سوچا جائے تو یہ بڑی حیرت کی بات ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ فری بلوچستان مہم کی خبر لندن سے اپنے ٹی وی پر خبرچلانا میرے خیال سے بھارت کے ایجنڈے کو مزید تقویت دینے والی بات ہے اس کے بدلے میں اس خبر کو نظر انداز کر کے فری کشمیری مہم شروع کی جائے تو اس سے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو تقویت ملے گی بلکہ دشمن اپنی حرکتوں سے باز بھی آئے گا اور اسے نقصان سے دو چار بھی ہونا پڑے گا۔ اس سے قبل بھی راقم نے زاتی طور چند افراد اور تنظیموں سے فون پر بات کی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ کون مخلص ہو کر اس سبب اپنے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور دشمن کی جانب سے چلائی جانے والی مہہم کے خلاف کب اور کیسے اقدام اٹھاتا ہے۔

تازہ ترین