اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظ ناموس رسالت قانون کا غلط استعمال روکنے کے حوالے سے قانون میں ترمیم کا جائزہ لینے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بھجوائی گئی سفارشات میں ایک نہایت اہم تجویز یہ پیش کی ہے کہ مذاہب اور مقدس مذہبی شخصیات کی توہین سے متعلق مقدمات ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کو بھجوانے کے بجائے وفاقی شریعت عدالتوں کو بھجوائے جائیں اور ان مقدمات کی سماعت کیلئے شریعت عدالت کی صوبائی شاخوں کو مضبوط کیا جائے۔ان چار تجاویز میں یہ سفارش بھی شامل ہے کہ توہین کا جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی وہی سزا دی جانی چاہئے جو توہین کے مرتکب کیلئے مقرر ہے۔توہین مذہب و رسالت کے قانون کے غلط استعمال کے واقعات بارہا سامنے آچکے ہیں ، بسا اوقات محض غلط فہمی کی بناء پر بے قصور لوگ اس کا نشانہ بنائے گئے ہیں جبکہ محض انتقام کی خاطر بھی اس حوالے سے الزامات لگائے جانے کی مثالیں ریکارڈ پر ہیں۔ضلعی عدالتوں میںایسے حساس معاملات میں انصاف کے تقاضوں کی تکمیل یقیناً ایک مشکل بات ہے۔ اس بناء پر توہین رسالت کے مقدمات کا شرعی عدالتوں میں چلایا جانا یقینا ان تمام حوالوں سے بہتر ہوگا اور بے گناہوں کے سزا پانے کے خدشات کا سدباب ہوسکے گا۔ شرعی عدالتوں میں بھی اسلامی اور جدید قوانین کے اعلیٰ پائے کے ماہرین کی موجودگی کا یقینی بنایا جانا لازمی ہے تاکہ کارروائی اور فیصلوں میں حتی الامکان کوئی خامی باقی نہ رہے۔اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت عدالتیں تحریک پاکستان اور ملک کے متفقہ آئین کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطربنائے جانے والے نہایت اہم ادارے ہیں ۔ اسلامی احکام و تعلیمات کی روشنی میں دورجدید کے مسائل اور چیلنجوں کا قابل عمل حل پیش کرنا ان اداروں کی اصل ذمہ داری ہے تاکہ مجلس قانون ساز ان کے مطابق قوانین تشکیل دے سکے۔ان اداروں کا مقصد فی الحقیقت اجتہاد کرنا ہے جس کی اہلیت کی شرائط نہایت کڑی ہیں لہٰذا ان اداروں کی کارکردگی اور معیار کو بھی ہر اعتبار سے بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دی جانی چاہئے۔