• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدارتی نظام، قائد اعظم کی ڈائری اور پیارے ڈاکٹر صاحب

ڈاکٹر عطاءالرحمٰن جید سائنسدان ہیں، مستند کالم نگار ہیں، ان کی انتظامی اہلیت مسلمہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے اختصاصی شعبوں میں جوہر دکھانے کی بجائے قوم کی سیاسی قیادت کا شوق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ کھیل کے قواعد بدل دئیے جائیں۔ جمہوری مکالمے کی بجائے تحکمانہ اقتدار کا جبر نافذ کیا جائے۔ پاکستان کے شہریوں سے اپنے حکمران چننے کا حق چھین لیا جائے، انہیں طالع آزمائی کی منجدھار میں غرق کر دیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو آمریت یا جمہوریت سے غرض نہیں۔ آپ صدارتی نظام میں تکنیکی ماہرین کی حکومت چاہتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی طبیعت ان دنوں ناساز ہے ورنہ ان سے درخواست کی جاتی کہ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا قصیدہ لکھیں۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کی مدح کا حق ساقی فاروقی ہی ادا کر سکتے ہیں۔ صاحب، کیسی کیسی جیتی جاگتی نظمیں ساقی فاروقی نے لکھ رکھی ہیں مثلاً ’خالی بورے میں زخمی بلا‘، ’شیر امداد علی کا مینڈک‘، وغیرہ… اور ہاں ایک نظم ہے ’الکبڑے‘۔
حالیہ کالم میں پیارے ڈاکٹر صاحب نے سابق وزیر خزانہ محبوب الحق کا حوالہ دیا ہے۔ ’’سیاسی حکومتیں ریاستی سرمایہ اور ملازمتیں ان سیاستدانوں کو انعام کے طور پر دیتی ہیں جنہوں نے برسراقتدار آنے میں ان کی مدد کی ہوتی ہے اس لئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ‘‘یاد رہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق ورلڈ بینک سے تشریف لائے تھے، ضیا کے عشرہ زیاں میں خزانے اور معاشی منصوبہ بندی کے امور دیکھتے تھے۔ وزارت سے فارغ خطی ملی تو اقوام متحدہ میں چلے گئے۔ شاید ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو استحضار نہ ہوکہ پاکستان 1980 میں پہلی بار کشکول اٹھائے آئی ایم ایف کی دہلیز پر پہنچا تھا۔ اس برس پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کی ادائی شروع ہوئی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے معیشت کی ترقی کے چار ادوار گنوائے ہیں۔ روزنامہ گارڈین نے 11 جولائی 2011 کی اشاعت میں لکھا تھا کہ پاکستان کو امریکہ کی معاشی امداد 1962 میں 203 ارب ڈالر کو پہنچ گئی۔ضیاالحق کے دس برس میں امریکی امداد اونچے درجے کے سیلاب کی طرح پاکستان میں آئی۔ پرویز مشرف دور میں امریکی امداد 2.5ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی۔ 1947سے 1954 تک پاکستان کی کسی حکومت کو امریکہ سے ایک ڈالر نہیں ملا تھا۔ 70 کی دہائی میں امریکی امداد بند رہی، نوے کی دہائی میں امریکیوں نے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگائے رکھیں۔ ڈاکٹر عطا ہندوستانی جمہوریت کے مقابلے میں چین کی آمرانہ حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ سن 2016 میں بھارتی معیشت کی شرح نمو 7.1 فیصد رہی۔ اسی برس چین کی شرح نمو 6.7فیصد رہی۔ بیس کروڑ کی آبادی اور 270 ارب ڈالر کے جی ڈی پی حجم کے ساتھ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن ہمیں ٹیکنو کریٹ عطائی حکیموں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن جانتے تو ہیں لیکن سمجھتے نہیں کہ جمہوریت بنیادی طور پہ معیشت ہی کا سوال ہے۔ معیشت کی بنیادیں تعلیم پر اٹھائی جاتی ہیں۔ تعلیم اور آمریت میں تضاد ہے۔ تعلیم عوام کو بااختیار بناتی ہے، آمریت لوگوں کو بے دست و پا رکھنے کا نام ہے۔ کہیں کہیں ڈاکٹر صاحب کی بے پناہ یادداشت غچہ کھا جاتی ہے۔ بھول جاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تعلیم کو عام کیا تھا۔ ضیا آمریت نے تعلیم کو نجی شعبے کے سپرد کر دیا۔ پاکستان کے دستور (شق 25) میں ریاست نے شہریوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ بتائیے جنرل ضیا اور جنرل مشرف نے کتنے نئے پرائمری اسکول تعمیر کیے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے پی ایچ ڈی پروگرام سے تو وہی طبقہ استفادہ کر سکتا ہے جس نے سولہ برس تک قابل مسابقت تعلیمی اداروں سے استفادہ کر رکھا ہو۔ ایسے تعلیمی ادارے پاکستان کے ان لوگوں کی استطاعت سے باہر ہیں جن کے پاؤں ننگے ہیں، جن کے سر پہ دھوپ کی چادر تنی ہے۔ جن کے پیٹ خالی ہیں اور جن کا احترام ٹیکنوکریٹ کی جاہ پسندی میں دھندلا گیا ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا ماننا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں روشن ترین عرصہ وہی تین برس تھے جب ڈاکٹر عطا وفاقی کابینہ میں روشنی دیتے تھے لیکن اس ٹیکنو کریٹ بندوبست کے حقیقی سرخیل تو شوکت عزیز تھے۔ اگر اس توڑا مروڑی سے معیشت کے امکانات ایسے ہی روشن ہو گئے تھے تو شوکت عزیز وزارت عظمی سے سبک دوش ہوتے ہی پاکستان کیوں چھوڑ گئے۔ کیا یہ ٹیکنو کریٹ ہیرے موتی پاکستان میں رکھنے کا نسخہ یہی ہے کہ انہیں اقتدار کے سنگھاسن پہ مستقل نشست دی جائے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کرپشن کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ کرپشن عوام کی سیاسی محرومی سے جنم لیتی ہے۔ آمریت سے بڑی کوئی کرپشن نہیں۔ جمہوریت کی مٹی نم ہو تو معیشت پر برگ و بار آتا ہے۔ قوم کی معیشت کراچی کے کسی کاروباری ادارے سے کچھ مختلف اور قدرے وسیع مظہر ہوتا ہے۔ اس میں وفاق کی چار اکائیاں شامل ہوتی ہیں۔ قوم کی معیشت بلوچ قیادت پر میزائل مارنے سے ترقی نہیں کرتی۔ بارہ مئی 2007کو کراچی میں گولیاں چلانے سے معیشت کی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ ڈیرہ بگٹی میں ڈاکٹر شازیہ خالد کی عزت محفوظ نہ ہو تو قوم کی لٹیا ڈوب جاتی ہے اگر قوم کی قسمت سرکاری فائلوں میں طے پانا ہے تو پاکستان میں درجنوں بیوروکریٹ بھرے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ سرکاری دفتر کی تنگنائے میں قابلیت کی کمی نہیں، پاکستان کو اس سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے جسے گولی ماری جاتی ہے، پھانسی دی جاتی ہے، بم سے اڑایا جاتا ہے، جلا وطن کیا جاتا ہے لیکن یہ دکھیارے ہماری درماندہ دھرتی نہیں چھوڑتے۔ انہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ پنجہ استبداد سے زور آزمائی کرتے ہیں۔ پیارے ڈاکٹر صاحب کی فردعمل اس اعزاز سے خالی ہے۔ اگر ٹیکنو کریٹ قیادت ہی نسخہ کیمیا ہے تو ایک ایک سیاسی جماعت ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جنرل پرویز مشرف نے بنا رکھی ہے۔
ڈاکٹر عطا الرحمٰنکی فطانت کو ایسا ہی میٹھا برس لگا ہے تو ٹیکنو کریٹ معدنیات کے ان نمونوں کو ایک میز پہ بٹھا کر دکھائیں۔ ادھر لڑتے جھگڑتے سیاست دانوں نے قومی اسمبلی میں 242 ووٹوں سے آئینی ترمیم پر صاد کیا ہے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کی تاریخ سیاست اور آرزوؤں کا ماخذ قائد اعظم کی ایک جعلی ڈائری ہے جس کا انکشاف ضیاالحق نے 12 اگست 1983 کو مجلس شوری میں کیا تھا۔ یادش بخیر مجلس شوری بھی ٹیکنو کریٹ کھچڑی تھی۔ قائد اعظم نے مئی 1947میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت اس ملک کے باشندے طے کریں گے۔ پیارے ڈاکٹر کو معلوم ہی نہیں کہ دستور میں تبدیلی کا طریقہ کار کیا ہے، فرماتے ہیں کہ ’’سپریم کورٹ روشن خیال سیاست دانوں اور عسکری قیادت کے ذریعے دستور بدلا جائے۔ نیز یہ کہ ایک فرد اور ایک ووٹ کی قیمت تعلیم سے منسلک ہو۔ ‘‘نہایت عمدہ تجویز ہے۔ اس میںمزید اضافہ یہ کرنا چاہیے کہ ووٹر کی تعلیمی سند کی تصدیق ایچ ای سی سے کروائی جائے، اور ایچ ای سی کے سربراہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن ہوں۔ انہیں ایم ایم اے کی ڈگریوں کی تصدیق کا وسیع تجربہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے البتہ یہ وضاحت نہیں کی کہ عسکری قیادت اور عدلیہ کے ووٹ کا تعین کیسے ہو گا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن صاحب کے مزعومہ ’’تکنیکی ماہرین ‘‘ پاکستان کو درپیش مسائل حل نہیں کر سکتے۔ پاکستان کو درپیش اہم ترین مسئلہ ایسے’’تکنیکی ماہرین‘‘ ہی ہیں جو قوم پر مسلط ہونے کا خواب دیکھتے ہیں۔ جنہیں اپنی مفروضہ قابلیت کا زعم ہے۔ جو قومی ترقی اور استحکام کے تقاضے نہیں جانتے، جو اپنے پروٹوکول اور بلٹ پروف گاڑیوں سے غرض رکھتے ہیں، جنہیں سرکاری گھر میں کبوتروں کا ڈربہ چاہیے اور جو اپنے وجود مسعود کو قومی سلامتی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ قائد اعظم کی کوئی ایسی ڈائری وجود نہیں رکھتی جس میں قوم کو عزیز مصر کی ان سات موٹی گائیوں کو چارہ ڈالنےکا حکم دیا گیا ہو۔ قوم ٹیکنوکریٹ پیران تسمہ پا سے نجات چاہتی ہے۔

تازہ ترین