• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیوں کے تین مرتبہ بنائے گئے(اگرچہ یہ متنازع ہے کہ بنائے گئے یا انتخابی سیاسی انتظامی شعبدے سے بنے؟) وزیر اعظم جناب نواز شریف نے، اپنی پارٹی کے متنازع قائد کی حیثیت سے اپنے طور’’خم ٹھونک‘‘ کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہونے کے بعد ان کا اس انداز سیاست کا جواز بنتا ہے یا نہیں، میاں صاحب اور ان کی جانب سے ان کی (عوامی عہدے کے لئے) جانشین کسی پارٹی عہدے کے بغیر دختر محترمہ مریم صفدر ہر دو پاکستانی عدلیہ پر’’حملہ آور‘‘ ہیں اور قوم کو یہ یقین دلانے پر کمر بستہ کہ ان کے خلاف پانچ ججز کا متفقہ فیصلہ ان کا اپنا نہیں بلکہ یہ کسی اور’’قوت‘‘ نے کرایا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ ان کا اشارہ کس جانب ہے، یعنی جنہوں نے جناب نوازشریف کو میدان سیاست میں اتارا تھا، پھر اتار کر اتنا نوازا کہ میاں صاحب اقتدار و سیاست کا استعارہ بن گئے۔ جیسے 2007-8کی وکلاء کی ملک گیر تحریک برائے آزاد عدلیہ، عوامی بن کر دنیا میں مانی جانی والی پاکستانی آزاد عدلیہ بن گئی، جس کی اعلیٰ پیشہ ورانہ سرگرمی سے بیمار ریاستی اداروں میں جان پڑنے لگی ہے اور بوجھل گورننس میں بہتری کا عمل شروع ہوا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آئین و قانون کی روشنی میں حکمرانوں کی سطح پر احتساب کا عمل کوئی پاناما لیکس کے بعد ان(سابق وزیر اعظم نوا ز شریف) کے خلاف عدالتی کارروائی سے شروع نہیں ہوا بلکہ ان سے پہلے سابق وزیر اعظم گیلانی ملک میں جاری(ٹاپ ٹو ڈائون) احتساب کے پہلے متاثر ہیں۔ جب وہ انصاف پاکر اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کئے بغیر سابق ہوئے تو خود جناب نواز شریف فیصلے سے قبل اس آئینی و قانونی احتساب کے مکمل تائیدی اور اس کا قانونی فیصلہ جلد دیکھنے کے لئے بےچین تھے۔ سو یہ لغو ہے کہ ان کے خلاف جاری اور ہوجانے والی عدالتی کارروائی انتقام ہے، جیسا کہ پارٹی کے سیاسی ابلاغ میں دعویٰ کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ روز بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پاکستانی عدلیہ کی آئینی طاقت اور اس کے استعمال پر ریمارکس دیتے ہوئے اس کی تعریف کی کہ ’’یہ اتنی طاقتور ہوگئی ہے کہ اس نے دو پاپولر سپورٹ کے منتخب وزراء اعظم کو عہدے سے الگ کردیا ‘‘۔اس پر بائیکاٹیڈ (ایٹ لارج) الیکشن میں’’منتخب‘‘ ہونے والی پاکستان کے کسی بڑے دشمن سے زیادہ بڑی دشمن بنگلہ دیشی وزیر اعظم بھڑک گئی کہ ہمارے چیف جسٹس نے پاکستانی سپریم کورٹ کی تحسین کیسے کردی۔
شکر الحمدللہ! پاکستانیوں کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا کہ وکلاء اور سول سوسائٹی کی قومی تحریک کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے آئینی وقانونی کردار سے ،لٹے پٹے پاکستان میں حکمرانوں کی سطح کا احتساب شروع ہوا، جس کو ن لیگ کی حکومت نے وفاق میں اقتدار کی تیسری باری کے باوجود، اپنی انتخابی مہم کی کمٹمنٹ کے برعکس روز اول سے ہی نظرانداز کرکے، اس حوالے سے میڈیا ا ور پی ٹی آئی کی تنقید اور عوامی خواہش (جس کا واضح اظہار جملہ ذرائع سے ہوتا رہا) مکمل کان بند کئے رکھے اور اس سیاسی مکاری کو سیاسی مفاہمت کا جامہ پہنادیا۔ ایسے میں احتساب کا مطالبہ اور دبائو کوئی کم نہیں ہوا، بڑھا، میڈیا نے ا حتساب پر منتخب انتظامیہ کی خاموشی کی کسر پوری کردی اور اپنے ایجنڈے میں مطلوب قومی احتساب کو اتنا نمایاں کیا کہ ن لیگ اسے میڈیا ٹرائل قرار دیتے ہوئے بے بس نظر آئی، قابو نہ کرسکی تو عطائیوں کی مشاورت سے ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر کرنے والا بھاری بھرکم میڈیا سیل بنادیا جو خود بھی احتسابی عمل کی زد میں آگیااور مکمل بے اثر ہی نہیں فائر بیک کا باعث بنا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس پس منظر میں احتساب، بطور شدید قومی ضرورت اور مسلسل مطالبے کے باوجود عدلیہ اس حوالے سے کوئی زیادہ سرگرم نہ رہی کہ اس کا بھی پس منظر تھا کہ ریٹائر چیف جسٹس جناب افتخار چودھری پر جوڈیشل ایکٹو ازم کا الزام ان کی شخصیت پر اٹھائے گئے کئی سوالات کے ساتھ لگتا رہا۔ اس سے بھی بڑھ کر بڑی وجہ یہ تھی کہ احتسابی عمل بذریعہ عدلیہ کو ممکن بنانے کے لئے حکومتی اداروں اور اپوزیشن کو عدلیہ سے رجوع کرنا تھا کہ سویوموٹو لینے کا گراف چیف جسٹس جمالی کے دور میں کم تر ہوگیا تھا، جبکہ محترم جج صاحب اپنے غیر عدالتی ابلاغ میں ملک میں انصاف کی زبوں حالی کی نشاندہی اور کسی انقلاب کا انتباہ کرتے رہے اور جاتے جاتے تک جب پاناما لیکس منظر عام پر آئیں تو ہمارے ریاستی تفتیشی ادارے تو سوتے ہی رہے، حتیٰ کہ عدلیہ میں حاضر بھی کئے گئے تو اپنی بےبسی کا اظہار کیا کہ وہ احتساب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن پاناما سے ہونے والی بے نقابی پر عمران خان، جناب سراج الحق اور شیخ رشید خم ٹھونک کر قانونی جنگ کے لئے میدان میں اتر آئے، انہوں نے عدالتوں سے رجوع کیا تو اتنا کچھ بے نقاب ہوا کہ یہ سلسلہ ابھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔واضح رہے کہ جاری احتسابی عمل میں شریک حکمران خاندان ہی زد میں نہیں آیا خود عمران خان، شیخ رشید اور پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
احتساب کی ایک جہد یہ ہے کہ بعداز پاناما ن لیگ کی دو وفاقی اور پنجاب و بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے مالی سیکنڈلز کو میڈیا مسلسل بے نقاب کررہا ہے۔ گویا احتساب عدلیہ ہی نہیں کررہی ’’میڈیا ٹرائل‘‘ بھی پوری شدت سے جاری و ساری ہے، پھر اپوزیشن کہاں بیٹھنے والی ہے ’’سیاسی مفاہمت‘‘ ہوا میں اڑگئی اور سوتی پیپلز پارٹی بھی اٹھ گئی اب وہ اپنے سیاسی ابلاغ میں حکمران خاندان کے عدالتی احتساب کی مکمل تائیدی نہیں؟ وہی پی پی جس نے جناب نواز شریف کو اقتدار کی تیسری باری کے آغاز پر ہی اپوزیشن کی روایتی بے رحمی کے مسلسل مظاہرے کی فکر سے بےفکر کردیا تھا اور دھرنے پر اپنا وعدہ وفا کیا۔
اور تو اور خود ن لیگ کے اندر کیا جاری احتسابی عمل کی تائید موجود نہیں؟ یہ جو سید ظفر علی شاہ اور بیگ صاحب جیسے محترم اور اعلیٰ قومی و سیاسی شعور کے مالک نظریاتی ن لیگی سینیٹر ٹی وی ٹاک شوز میں اپنے دھیمے انداز لیکن پوری بیباکی سے عدالتی کارروائی کی تائید و حمایت میں کلمہ خیر کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے اور ن لیگ کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی بڑی قابل ذکر تعداد نجی محفلوں میں جس طرح جناب نواز شریف اور دختر نیک اختر کی اداروں کے خلاف کھلی اور غیر قانونی ،غیر سیاسی اور غیر اخلاقی جنگ سے اختلاف کررہے ہیں حتیٰ کہ وفا کا پتلا چھوٹا بھائی بھی، ایسے میں جناب نواز شریف نظرثانی کی درخواست پر عدالتی فیصلے کو عدالتی نہ مان کر عوام سے جلسوں میں نظر ثانی کرانے کی جو راہ اختیار کررہے ہیں، کیا وہ اس سے’’مرد حر‘‘ بن جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ جائزہ تو لیں کہ ملک میں شروع ہونے والا قومی احتسابی عمل کتنا کثیر الجہت ہے کہاں کہاں، کس کس سے لڑیں گے؟ ان کے ممکنہ حد تک سکون کے لئے فقیر کا مشورہ ہے کہ زمبابوے کے حالات حاضرہ پر نظر رکھیں۔

تازہ ترین