• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور قائداعظمؒ یونیورسٹی میں پڑھانے والی ڈاکٹر عمارہ ربانی رائو کی دلچسپ کتاب میرے سامنے ہے۔ یہ مختلف تحریروں کا ایک مجموعہ ہے۔ کوئی تحریر دلچسپی سے خالی نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک نجی ٹی وی پر سیاسی پروگرام بھی کرتی ہیں۔ میڈیا سے مجھے پچھلا کالم یاد آگیا۔ میرے پچھلے کالم میں میڈیا مینجمنٹ کے ماہر سید علی کے والدبزرگوار سید عابد علی شاہ کا نام غلط شائع ہو گیا تھا۔ سید علی کے بڑے بھائی سرمد علی اے پی این ایس کے صدر ہیں۔ اسلام آباد میں آج کل سرد ترین موسم ہے۔ اس سردترین موسم کے یہ دن ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے کہ ان دنوں میں پنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ایک دھرنا جاری ہے اور اب اس دھرنے کے دوران اس مہینے کا چاند نظر آگیا ہے جس میں رحمت ِ دوجہاں حضرت محمد ﷺ کی آمد ہوئی تھی۔ رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ربیع الاوّل شروع ہو چکا ہے۔ اقتدار پربراجمان لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان مشکلات کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین روز پہلے الیکشن ترمیمی بل کی منظوری کے لئے حکومت اور اپوزیشن مل کر بھی ووٹ پورے نہ کرسکیں۔ سینیٹ میں بل کی منظوری کے لئے 69سینیٹرز کی ضرورت تھی مگر افسوس کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر بھی صرف 58سینیٹرز لانےمیں کامیاب ہوئیں۔ سینیٹ میں اس ناکامی کے بعد کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی ممبران کم آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومتی گرفت بہت کمزور ہو چکی ہے۔ نہ اراکین پرگرفت ہے نہ وزرا کا ہجوم قابو میں اور نہ ہی معاملات میں سلجھائو نظر آ رہا ہے۔ اس کا اندازہ آپ وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ سولہ روز سے جاری دھرنے سے لگا سکتے ہیں۔ اس دھرنے اور 2014کے دھرنے میں دو بنیادی فرق ہیں مثلاً 2014کا دھرنا پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے حکومت گرانے کے لئے دیا تھا مگرموجودہ دھرنا حکومت گرانے کے لئے نہیں دیا گیا۔ اہل دھرنا کو اقتدار کی خواہش نہیں ہے۔ وہ صرف اورصرف یہ چاہتے ہیں کہ ایسے ذمہ دارافراد کو سامنے لایاجائے جواسمبلی میں قانون بدلنے کے مرتکب ہوئے۔ دھرنے والوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اہل دھرنا خالصتاً عشق رسولﷺ کے تحت بیٹھے ہیں۔ دوسرابنیادی فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے ڈی چوک کودھرنے کامقام بنایا تھا جس سے اسلام آباد اور پنڈی کے شہریوں کوزیادہ پریشانی نہیں ہوئی تھی کیونکہ ڈی چوک تو بالکل پارلیمنٹ ہائوس کےسامنے ہے جبکہ تحریک ِ لبیک یا رسول اللہؐ کے کارکنوں نے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دے رکھا ہے۔ جولوگ راولپنڈی اور اسلام آباد سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ فیض آباد پر دھرنے سے دونوں شہروں کی ٹریفک درہم برہم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس سے خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس مقام کی اہمیت کے پیش نظر ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ عدالت نے فیض آباد کو خالی کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور دھرنے والوں کے مابین مذاکرات بھی ہوئے ہیں مگر یہ مذاکرات اس لئے بے نتیجہ ثابت ہوئے کہ حکومت دھرنے والوں کا کوئی بھی مطالبہ ماننے کے لئے تیار نہیں، الٹا انہیں لارے لپے لگائے جارہے ہیں۔ اس غیرسنجیدہ طرز ِ عمل کے دوران اب ربیع الاوّل کا چاند نظر آگیا ہے۔ اس چاند نے اہل دھرنا میں نئی روح پھونک دی ہے۔ پتا نہیں حکومت راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو ہرصورت کیوں چھپانا چاہتی ہے۔ نواز شریف کو تو بیس کروڑ لوگوں کے ووٹ نہیں ملے تھے مگر بیس کروڑ مسلمان تحفظ ِ ختم نبوت ؐ کے لئے جان ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے ہیں۔
راجہ ظفر الحق نے مختلف انٹرویوز میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ غلطی سہواً نہیں ہوئی بلکہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔ شاید اسی لئے ایک وزیر کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔دوسرے وزیر کا نام نہیں لیا جارہا کہیں ایسا نہ ہو کہ پورا پنڈورا باکس ہی کھل جائے۔سازشی تھیوری یہ کہتی ہے کہ ایک خاص طبقے کو خوش کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے امریکہ میں مذاکرات کئے تھے۔ یہ سازشی تھیوری یہ کہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی ایک خاتون رہنما نے اسی طرز کے مذاکرات لندن میں کئے تھے۔
ایک کمزور حکومت نہ تو اپنے وزیر سے استعفیٰ لے رہی ہے اور نہ ہی دھرنے والوں کو اٹھانےکی کوشش کر رہی ہے۔ نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر عدلیہ اور اداروں کی توہین کی ہے۔ مذہب اور اداروں کی توہین کی بڑی قیمت ہوتی ہے۔ یہ قیمت کسی نہ کسی کو ادا کرنا پڑے گی۔ یہ مہینہ بڑا اہم ہے۔ ربیع الاوّل میں سب جہانوں کی افضل ہستی حضرت محمدﷺ تشریف لائے تھے۔ یہ مہینہ محبوب ِ خدا کی آمد کا مہینہ ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ اسم محمدﷺ پر جان نچھاور کرنے کےلئے تیار رہتے ہیں۔ بقول اقبالؒ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

تازہ ترین