• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصل بات تو اپنے انور شعور نے کہہ دی۔ اس اتوار کو جنگ میں ان کا جو قطعہ چھپا ہے اس کا دوسرا شعر ہے
نازک معاملات پہ کیوں رائے دیں بھلا
ہے رائے سے زیادہ ہمیں زندگی عزیز
ہم نے ارون دتی رائے کے ناول کے حوالے سے کہیں لکھ دیا تھا کہ کرپشن کرپشن کی رٹ لگا کر اگر ہم اپنے تمام سیاست دانوں کو گائوں بدر کر دیں گے تو میدان میں کون رہ جائے گا؟ وہی عام آدمی کی اندھی عقیدت کا فائدہ اٹھانے والے؟ اس پر ہمیں وہ بے بھائو کی پڑیں کہ سر کے بال بچانے کی فکر پڑ گئی۔ ہمیں بھی اپنی زندگی بہت عزیز ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ نازک معاملات پر کوئی رائے نہ دیں۔ لیکن صحافت میں گزارے ہو ئے پچاس ساٹھ سال ہمیں ایسا نہیں کرنے دیتے۔ وہ ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالیں، ورنہ سینہ پھٹ جائے گا۔ اب یہی دیکھئے کہ ہم روز بروز پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں اور ان عناصر کے لئے جگہ چھوڑتے جا رہے ہیں جو ہمارے وطن کو دنیا بھر سے الگ تھلگ کر کے ایک جزیرہ بنانا چاہتے ہیں۔ آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقتی طور پر اپنے سیاسی اور اقتداری مقاصد حاصل کر نے کے لئے ان عناصر کو تقویت پہنچائی گئی جو آج اتنی بڑی طاقت بن چکے ہیں کہ جب بھی چاہیں وہ پورے ملک کا محاصرہ کر کے کسی بھی حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ دور کیوں جایئے یہ تو کل کی بات ہی ہے کہ روشن خیال جماعتوں کی طاقت توڑنے اور سیاسی حلقوں میں انتشار پھیلانے کے لئے اسلام آباد کی لال مسجد کو ان عناصر کا قلعہ بنا دیا گیا۔ ایک آمر مطلق کو اسلام آباد یا اس کے اردگرد کوئی شخص نہیں ملا تو اس نے ملتان کے دور دراز علاقے راجن پور سے ایک شخص کو بلا کر اس قلعے میں بٹھا دیا۔ دوسرے آمر مطلق نے پہلے تو انہیں خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اور جب ان عناصر نے خوب اپنے پنجے گاڑ لئے تو اس کے بعد ایسا قدم اٹھایا جو سارے ملک کے گلے پڑ گیا۔ ہم آج تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کون غازی بنا اور کون شہید؟ ہم سب محاصرے میں ہیں۔ آج یہ حال ہو گیا ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے پانچ سو ہزار آدمی لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑتا ہے اور پوری حکومت کو مفلوج کر دیتا ہے۔
اب تو ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی حکومت ان عناصر کا کچھ نہیں کر سکتی۔ قانون اور امن و امان کے لئے انتظام و انصرام اب حکو مت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ قانون اور آئین اب ان کے ہاتھ میں ہے جو ہزار دو ہزار آدمی جمع کر کے دارالحکومت کا محاصرہ کر سکتے ہیں۔ یہ عناصر اپنی طاقت اور اپنا اختیار دکھا کر کسی بھی حکومت کو خوف زدہ کر سکتے ہیں۔ وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ اگر ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو پورے ملک میں آگ لگا دی جائے گی اور یہ کوئی ایسی ویسی دھمکی نہیں ہے بلکہ بہت ہی کڑوی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کھلم کھلا ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہے۔ اسلام آباد کے دھرنے نے یہ حقیقت پوری طرح آشکار کر دی ہے۔ ہمارے لبرل دوست خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن عربی کا یہ محاورہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے کہ ’’عوام کالانعام‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں جو بھی چاہے ہنکا کر لے جائے۔ اس کے لئے صرف کسی نظریے یا عقیدے کی گولی کھلانا کافی ہے۔ اس کے لئے ہم صرف مدرسوں پر الزام نہیں دھر سکتے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کو تعلیم دلا دو، وہ صحیح راستے پر چلنے لگے گا۔ لیکن کس قسم کی تعلیم؟ آپ اپنے ملک کی تعلیم کو ہی دیکھ لیجئے۔ ہم اپنے بچوں کو وہ تعلیم دے رہے ہیں جو وہ عناصر ہم سے دلوانا چاہتے ہیں جو ہمیں صدیوں پیچھے لئے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی جب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم باقی دنیا کے ساتھ نہیں چل رہے ہیں، اور ہم ترقی یافتہ ملکوں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں تو تھوڑی سی ہمت کر کے اپنے تعلیمی نظام اور نصاب میں تبدیلی کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن فوراً ہی اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگتا ہے ان عناصر سے جنہیں ہم نے ستر سال میں خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ عمران خاں پاکستان میں تبدیلی لانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن کروڑوں روپے ایک مدرسے کو دیئے جاتے ہیں اور تبدیلی آ جاتی ہے۔ ہماری ہر حکومت یہی کرتی آ رہی ہے۔ کس حکومت نے ان عناصر کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کی؟ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔
ہم نے اوپر انور شعور کے قطعہ کا ایک شعر نقل کیا ہے۔ امریکہ سے حسین حقانی نے بھی ٹویٹر پر ایک شعر بھیجا ہے۔ یہ شعر بھی ہمارے حالات سے ہی مطابقت رکھتا ہے۔
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگتا ہے
یہ شعر بھی ایک ہندوستانی شاعر کیف بھوپالی کا ہے جیسے وہ شعر بھی ایک ہندوستانی شاعر کا ہی ہے جو ہمارے معزز جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے۔ جی ہاں، ہمارے ہاں جو آگ لگائی گئی ہے یوں تو وہ پل دو پل میں ہی سلگائی گئی ہے لیکن اسے الائو یا آتش فشاں بننے میں ستر سال لگ گئے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اسے بھی بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگے گا؟ مگر کتنا زمانہ؟ اور کیا یہ آگ بجھ بھی جائے گی یا یہ ابھی اور بھڑکے گی؟

تازہ ترین