• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلتے ہو تو چمن کو چلئے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے۔ یقینا پاک چین راہداری کی تکمیل سے بلوچستان جیسا بے آب و گیا بنجر علاقہ بھی سر سبز و شاداب ہوجائے گا۔ چین کا مقصد گوادر کی بندرگاہ تک رسائی حاصل کر کے اپنے دور دراز لیکن پاکستان سے ملحق اپنے علاقوں میں تجارتی معاشرتی سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنا ہے لیکن اس سے ہمیں جو سہو لتیں میسر آئیںگی، وہ بھی کچھ کم نہیں۔ اس سے وطن عزیز کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہوں گے۔ اسی سبب بھارتی حکمرانوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ مخالفت کر رہا ہے۔ اردو زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے۔ بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے اچانک ہی بھارتی حکمرانوں کو تمام ترمخالفت کے باوجود ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کا خیال کیوں آیا؟ دراصل ضرب عضب کے باعث نہ صرف افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں اور بلوچستان کے اہم علاقوں میں بھی جہاں جہاں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے اہلکار اپنی خفیہ اور ظاہری کارروائیوں کے ذریعے اپنے مذموم عزائم پورے کرنے میں مصروف تھے وہاں سے نا صرف را کے ایجنٹوں کا بلکہ ان کے حامیوں کا بھی صفایاں ہو رہا ہے۔ ان کو اپنے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ پاک چین راہداری پر کام شروع ہوا چاہتا ہے معاہدے کی تکمیل ہو چکی ہے اس سے بھی بھارت کا نا صرف پاکستان کے علاقوں سے گزرنا اور اسے کمزور کرنے کی مہم مشکل ہوگئی ہے اور افغانستان تک آنے جانے کی راہ بھی بند ہوتی نظر آرہی ہے پھر مستقبل میں بھارت کو نظر آرہا ہے کہ اگر پاک چائنا راہداری پایہ تکمیل کو پہنچ جاتی ہے تو نہ صرف چین کو براستہ بلوچستان گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے اپنی در آمدات و برآمدات کی جو سہو لتیں ملنے والی ہیں اس سے جہاں چین کو بے پناہ فائدہ پہنچنے والا ہے وہیں اس راہ داری سے بلوچستان اور اس کے عوام کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہوگا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور بلوچستان کی پس ماندگی خوش حالی میں بدل جائے گی۔ جبکہ افغانستان کو بھی اس راہ داری کے ذریعے گوادر کی بندر گاہ تک رسائی حاصل ہوسکے گی۔ یہی نہیں بلکہ روس کی وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی گرم پانی کی بندرگاہ تک رسائی مل سکے گی اور یوں پاکستان نہ صرف چین بلکہ وسط ایشیا کی ریاستوں اور روس کا بھی مددگار بن کر اس کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرسکے گا اور سب سے اہم یہ کہ بھارت جو افغانستان میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے اسے افغانستان اپنے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سبب بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان پہنچ کر محبت اور اخلاص کا مظاہرہ کرتی رہیں تاکہ پاکستانی حکمرانوں کی محبت اور ہمدردی کے جذبات کو ابھار کر اپنا الو سیدھا کر سکیں۔ جیسا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں بھی اظہار کیا کہ افغانستان سے تجارت کے لئے پاکستان سے زمینی راستے کا سوال کردیا ہے۔ یوں کسی حد تک ہی سہی بھارتی بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں وہ صرف اس لئےہی آئی تھیں کہ فی الحال انہیں افغانستان سے اپنی تجارت کے لئےپاکستان سے گزرنے کا رستہ درکار ہے۔ اس طرح سے بھارت نا صرف افغانستان سے اپنی تجارت کو فروغ دے سکے گا بلکہ پاکستان سے گزرتے ہوئے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے راستے بھی ہموار کرسکے گا۔
دراصل پاک چین راہداری کی تکمیل سے ایک طرف تو یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہوجائے گی اور خطے میں اس کی معیشت مضبوط تر ہوجانے کا مقصد نا صرف چین بلکہ روس اور افغانستان کی تمام تر ہمدردیاں اور امداد کا مستحق پاکستان بن جائے گا اور ایٹمی طاقت ہونے کے باعث مستقبل میں چین اور روس جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اہم رکن ہیں (ویٹو پاور) کی معاونت سے کہیں پاکستان بھی سلامتی کونسل کا رکن نہ بن جائے کیونکہ فی الحال تو بھارت نے اپنی روسی ہمدردی کے سبب پاکستان کے خلاف مہم چلا کر پاکستان کو سلامتی کونسل کا رکن نہیں بننے دیا اور ویٹو کرا دیا۔ چین اور روس دونوں ہی ویٹو پاور والے ہیں اگر پاکستان کی معاونت سے چین کو اور پھر روس کو گوادر کی بندرگاہ تک رسائی حاصل ہوگئی تو دونوں ممالک پاکستان کی دوستی اور راہداری کے باعث اس کے رکن بننے کو ویٹو نہ کرسکیں گے۔ شاید یہی احساس ہوا ہے بھارتی عقل مندوں کو کہ انہوں نے ساری مخالفت اور اپنے پاکستان دشمن رویوں کو پس پشت ڈال کر اپنے اختلافات مسئلہ کشمیر، سیاچن، سرکریک اور دہشت گردی جیسے معاملات و مسائل پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ دراصل یہ بھی بنیا ذہنیت کا مظہر ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے فی الحال ناک نیچی کرلی ہے ورنہ یہی حکمران تھے جو کشمیر کے اٹوٹ انگ کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ کشمیری مسلم قیادت کو دہلی میں بھی پاکستانی قیادت یا نمائندوں سے ملنے پر پابندی عائد کرتے رہے ہیں اور کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان آنا دراصل ایک ڈرامہ ہے بظاہر دوستی اور بھائی چارے کے سفر کی ابتدا کی جا رہی ہے مگر کوشش کرے گا کہ یہ عظیم الشان منصوبہ کسی بھی طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ پاک چائنا راہ داری کے راستے میں جس طرح بھی ہوسکے رکاوٹ ڈالے گا۔ ہمارے حکمرانوں سوچ سمجھ کر اور وطن عزیز سے اپنی حب الوطنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوگا بھارت کو افغانستان سے تجارتی راہداری دینے سے پہلے اس سے مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک بات کرنا ہوگی اور سیاچن اور سر کریک کے معاملے کو طے کرنا ہوگا۔ ابھی تو صرف وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ آکر گئی ہیں جو سارک سربراہ کانفرنس کے لئے مودی کی آمد کے لئے راہیں ہموار کر گئی ہیں۔
خدشہ اس بات کا بھی موجود ہے کہ اگر پاکستان نے سارک سربراہ کانفرنس سے پہلے کہیں مسئلہ کشمیر یا دیگر متنازع مسائل پر بات چیت کرنے کی کوشش کی تو شاید سربراہ کانفرنس کا انعقاد ممکن نہ ہوسکے کیونکہ مسئلہ کشمیر یا دیگر مسائل جو برسوں سے ہماری طرف سے تو متنازع ہیں لیکن بھارت اسے متنازع تسلیم ہی نہیں کرتا وہ انہیں اپنا حق اور اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ان پر مذاکرات وہ بھی مثبت مذاکرات کے لئے کیسے آمادہ ہوسکے گا۔مودی سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آپ کو کچھ دے سکے گا یا آپ کا حق کشمیر پر کسی طرح تسلیم کرسکے گا۔ یہ سب تو ایک سیاسی ناٹک ہے اور پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کھلی چال کے سوا کچھ نہیں۔

تازہ ترین