• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھرنا، وزیرداخلہ طلب، انتظامیہ کو نوٹس ، مسئلہ مذہبی یا سیکولر نہیں شہریوں کے حقوق کا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ)اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا ختم نہ کرانے پر وزیر داخلہ کو طلب کرلیا،عدالت نے کہا کہ حکومت بے بس ہے ان لوگوں کو یہاں کیوں بیٹھنے دیا، مسئلہ مذہبی یا سکیولر نہیں شہریوں کے حقوق کا ہے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائیں،احکامات کے باوجود فیض آباد کیوں خالی نہیں کرایا ؟کیوں نہ سیکرٹری داخلہ ، آئی جی اسلام آباد ، چیف کمشنر ، ڈپٹی کمشنراسلام آبادکیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے،ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ باتیں اوپن کورٹ میں نہیں کی جاسکتیں لہذا ان چیمبر سماعت کریں.
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیض آباد انٹر چینج کو مظاہرین سے خالی کرانے کے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرانے پر سیکرٹری داخلہ ، آئی جی پولیس اسلام آباد ، چیف کمشنر ، ڈپٹی کمشنر کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا ۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ عدالتی احکامات کی عدولی پر کیوں نہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔عدالت نے وزیرداخلہ احسن اقبال کوبھی طلب کیاجس پروہ پیش ہوگئے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ حکومت بے بس ہے.

ان لوگوں کویہاں کیوں بٹھایا،مسئلہ مذہبی یاسیکولرنہیں،شہریوں کے حقوق کاہے، اسلام آباد ہائیکورٹ وفاقی دارالحکومت میں بسنے والے 8 لاکھ شہریوں کی محافظ ہے جنہیں مظاہرین کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا ، مظاہرین نے انتہائی اہم نوعیت کی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے ، جس سے شہریوں کی نقل و حرکت بری طرح متاثر ہے،کسی شخص یا گروہ کو عدالتی احکامات ہوا میں اڑانے یا مرضی سے عملدرآمد کی اجازت نہیں دے سکتے ، عدالتی احکامات کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے جو عدالت کو نیچا دکھانے کی کوشش ہے ، اسے نظرانداز نہیں کرسکتے ، عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہ چلائیں ،عدالتی احکامات کے باوجود فیض آباد کا مقام خالی کیوں نہیں کرایا جا سکا ؟ کیوں نہ فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے ، یہ جماعت انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اس کو سیاسی جماعتوں کی طرح ڈیل کریں ، تاجروں ، مریضوں ، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ دوران سماعت وزیر داخلہ احسن اقبال نے معاملے کے حل کیلئے دو روز کی مہلت کی استدعا کی تاہم عدالت نے فریقین کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 23 نومبر تک ملتوی کر دی۔ پیر کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پرویز ظہور کی درخواست کی سماعت کی تو آئی جی اسلام آباد محمد خالد خٹک ، چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر ، ڈپٹی کمشنر کیپٹن ( ر ) مشتاق احمد ، ڈی آئی جی آپریشنز میر واعظ نیاز ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کیپٹن ( ر ) شعیب ، ڈی ایس پی لیگل اظہر حسین شاہ ، سیکرٹری داخلہ اور جوائنٹ سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف بھی عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ باتیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کی جا سکتیں، ان چیمبر سماعت کریں جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جو بات کرنی ہے اوپن کورٹ میں کریں،وہ زمانہ گیا جب باتیں چھپائی جاتی تھیں ،8 لاکھ شہریوں کے حقوق کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تاجروں، مریضوں، طلبہ اور ملازمین کا کیا قصور ہے؟ یہ انتظامیہ کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہے ، بتایا جائے ابھی تک عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ، انتظامیہ کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا حکم دیا تھا ، عدالتی احکامات کے باوجود فیض آباد کا مقام خالی کیوں نہیں کرایا جا سکا ؟ فاضل جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ علیحدگی میں کیا بات کریں گے یہی کہیں گے کہ دھرنے والوں کے پاس پتھراور اسلحہ ہے۔ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ قوم کو اعتماد میں لیں اور قوم سے خطاب کرکے بتائیں کہ دھرنا ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں۔ فاضل جسٹس نے عدالتی حکم کے باوجود دھرنے کے شرکاءکو فیض آباد سے نہ ہٹانے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کو ذاتی حیثیت میں عدالت پیش ہونے کا حکم دیا اور سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ فون پر وزیر داخلہ کو اطلاع دیں اور عدالتی احکامات سے آگاہ کریں۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میںپیش ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فریقین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کا احترام نہیں ہو رہا ، فریقین کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ، کیوں ابھی تک دھرنا ختم نہیں ہوا؟ ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ سارا عمل 2018ءکے الیکشن کی تیاری کیلئے ہو رہا ہے تاہم اس معاملے میں ملک کے علماءو مشائخ نے رابطہ کیا ہے ، وہ معاملے کے حل کیلئے مدد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان جماعتوں نے پنجاب حکومت کو دھرنا نہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی جبکہ اس دھرنے کی مدد سے کچھ عناصر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے۔

تازہ ترین