• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کسی طور بھی نظریہ کا نام نہیں۔ نظریہ فقط ایک ہی، نظریہ پاکستان، امین بننے کے امکانات تھے، بے اعتنائی برتی۔ سازشوں کے گرداب میں، مناسب نہیں کہ نظریاتی امانت کی پاسبانی میں کوتاہی پر گرفت کی جائے۔ قومی سانحہ کہ حکیم الامت کا خواب، عظیم قائد کی جدوجہدقوم کا مقدر نہ بن سکے۔بدقسمتی کہ نواز شریف قائد اعظم کی مسلم لیگ کا نظریہ اجاگر رکھنے میںشعوری طور پر ناکام رہے۔ کاش 70سال میں کوئی حکمران نظریاتی صداقت و امانت کی کسوٹی پر پور ااترتا۔ ایمانی صداقت کے ساتھ نظریاتی امانت کی حفاظت کر پاتا۔
البتہ نواز شریف تنگ آمد بجنگ آمد، اپنے اثاثے اور قوت کو پھرولنے کا عزم صمیم رکھتے ہیں۔ ایبٹ آباد جلسہ خبر دے گیا، ’’مزاحمت مضبوط جمہوریت کے لئے ضروری ہے‘‘۔ میں، ذات، نفس، مفادات،لالچ و طمع کی افزائش نے دہائیوں سے آئین اور قانون سے تجاوز کے کئی گُر نکالے، نسل در نسل سکھائے۔ پہلو تہی کی ترکیب و تدبیر کا لامتناہی سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ منصفوں اورپاسبانوں کے سرداروں کا گٹھ جوڑ ،مملکت کوبے رحمانہ بھنبھوڑتا رہا، مضرو ب رکھا، ریاست بار بار مقتل بنی، ٹوٹ گئی مگرسبق نہ سیکھا۔ اللہ کا عذاب بصورت خوف، وسوسے، عدم تحفظ، افراط و تفریط، تفرقے بازی، قومیتی ٹکرائو، مناظرہ بازی، گلی گلی فساد جھگڑا مسلط ہے۔ مانا کہ سیاستدان اپنے تئیں درخشاں باب کبھی بھی نہ تھے مگر ’’قافلہ لٹنے‘‘کی ذمہ داری بہر حال عائد نہیں ہوتی۔ ماننا ہو گا کہ قافلہ ہمیشہ غاصبوں، سازشیوں اور بدکرداروں کے گٹھ جوڑ نے لوٹا۔ ایسوں نے مملکت کی چولیں ڈھیلی رکھنے میں کبھی بخل نہ دکھایا۔ ’’قافلہ لٹنے‘‘پر نام نہاد راہبروں کو موردِ الزام ٹھہرانا، دہائیوں سے قربانی کا بکرا بنانا، قصورناحق منڈھ دینا،زیادتی ہے۔ رہبرنہتے، بھلا توپ و تفنگ، فائلوں، گمنام کالوں کا مقابلہ کیسے اور کیونکر کر پاتے، ڈھیر رہے۔نواز شریف نا اہل ہو گئے،بھائی لوگوں کی مطلب براری ادھوری رہی۔ گیم پلان کہ عام انتخابات رکوانے تھے۔مذموم وملفوف مقصد، ’’نگران حکومت بنے اورجانے نہ پائیـ‘‘۔
نواز شریف نے جو کہا، پورا سچ کہ’’قافلہ جب لٹتا ہے ،اداروں کو ادارے کی بیعت مجبوری بن جاتی ہے‘‘۔ جملہ معترضہ، اکتوبر1999میں قافلہ لٹا، جنرل مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ عمران خان کو روز اول سے ساتھ دینے سے روکا کہ سیاسی نقصان کا ازالہ نہ ہو پائے گا۔1996،عمران خان نے اِدھر سیاست میں قدم رنجہ فرمایااُدھر ایسے تعلقات پر اتراتے ،ساری امیدیں اور اپنی سیاست کاحاصل حصول ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ رکھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے رہنمائی طرہ امتیاز رہی۔ ایسوں تک رسائی ،رہنما اصول بنی۔شکریہ مصطفیٰ کمال (PSP)کہ اسٹیبلشمنٹ کا نام سہل بنایا، زبان پر لاتے لکنت نہیں رہتی۔ بحث و تمحیص بڑھتی تو عمران خان کی دلیل رہتی کہ مشرف مخلص، قانون کی حکمرانی دیں گے۔ میری جوابی دلیل کہ آئین کی دھجیاں اڑانے والا بھلا قانون کی حفاظت کیونکر کرے گا؟ عمران پر واضح رکھا کہ اگر عدلیہ سے زبردستی بیعت نہ لی، نہ چھیڑا تو تحفظات کچرے کی ٹوکری میں ڈالوں گا۔ چند ماہ نہ ہوئے زندہ سپریم کورٹ کے زندہ چیف جسٹس کے گھر باہر ٹینک، سپریم کورٹ سرنگوں رہی، ہتھیار ڈالنے ہی تھے۔ چیف کی نظر بندی پر باقی برادر باادب، با ملاحظہ رہے، اکثرنےPCOمیں جائے اماں ڈھونڈی۔البتہ جسٹس وجیہہ الدین کو سلیوٹ کہ8سالہ چیف جسٹس پوزیشن کو لات ماری، بیعت نہ کی۔21ویں صدی ہے، کوشش مہذب طریقے سے کہ اگر مطلوبہ نتائج ملتے رہے توPCOکی نوبت نہیں آئے گی، وگرنہ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرانا ہے۔دیکھا نہیں پاناما کیس فیصلہ چند دنوں کے لئے محفوظ ہوا، سوشل میڈیا پر کیا کیچڑنہ اچھالا گیا۔’’فیصلہ سو رہا ہے‘‘،جیسے طربیہ، مزاحیہ،تنقیدی سینکڑوںخاکے دیکھنے کو ملے۔ یقیناً تحریک انصاف والے متحرک تھے۔ مگر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی میں ایسی منظم اور لاتعدادپوسٹس اکیلی تحریک انصاف کے بس کی بات نہ تھی۔ یقیناًکچھ ہاتھوںکا ساتھ بھی، حصہ بقدر جثہ حاصل ہو گا ۔ جج صاحبان دوران کارروائی ایسی مہم جوئی بارے تشویش کا اظہاربھی کرتے رہے۔ کارروائی متاثر رہی کہ نئے چیف صاحب نے اپنے آپ کو پاناما بنچ سے علیحدہ رکھا۔ آج جبکہ عمران خان ،جہانگیر ترین کیس پر فیصلہ محفوظ تو یک گونہ اطمینان کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ بند ہے۔خوشی کہ اس مد میں ہرزہ سرائی نہیں ہوئی۔ ن لیگ کو تھپکی کہ سوشل میڈیا کے مادر پدر آزاداستعمال سے گریزرکھا۔
نوازشریف کی مزاحمتی تحریک نے بالآخر اداروں کو ہی مضبوط بنانا ہے۔ وطنی بحران میں نواز شریف اگر سینہ تان کرمد مقابل نہ آتے تو علی الرغم و برخلاف آنے والے دنوںسلسلہ بیعت کسی بھی وقت دروازہ توڑ کرداخل ہو سکتا تھا۔ نواز شریف، آج مزاحمت کی غیر معمولی علامت بن کر سامنے آئے ہیں، ہر صورت پذیرائی ملنی ہے۔ ایسی مزاحمت پربطل حریت کہلائیں گے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید، روشنی کی واحد کرن بن چکے۔ اگر نواز شریف مزاحمت کا عظیم بیڑہ اپنے مضبوط کندھوں پر نہ اٹھا تے تو یقیناََ مملکت کے سیاسی افق پر چھائی تفکرات و خدشات کی گھنگور گھٹائیں تہلکہ مچانے میں بے تکلف رہتیں۔ تحریک مزاحمت کی تب و تاب کو چار چاند لگیں گے، پذیرائی ملے گی تو مملکت کی بربادی پر گریہ زاری کے امکانات ان شا اللہء ناپید و معدوم رہیں گے۔
ناممکنات کو چیلنج بلکہ خوش نصیب موقع اور موافق حال سمجھتا ہوں۔نواز شریف نے ناممکنات کو ممکنات بنایاتو بڑا تاریخی مقام پائیں گے۔امید، ایسے نادر موقع سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا پائیں گے۔آنے والے چند دنوں نے یہی بتانا ہے۔ مودبانہ گزارش کہ نادرموقع ضائع نہیں کرنا۔ بیانیہ کی درستی اور وژن کی کلریٹی پہلی ضرورت ہے۔اگرترجیحات اور بیانیہ مضبوط رہا، ووٹر سپورٹر پہلے سے لبیک کہہ چکے ،کامیابی قدم چومے گی۔نواز شریف کا قدم درست سمت میں اٹھ چکا۔ ’’موت اور جیلـ‘‘موجود، دونوں سے بے پروا، تاریخِ وطن، سیاستدانوں پر دونوں نافذ ہوتا دیکھ چکی ہے۔ نواز شریف جیل بھگت چکے، موت کو سانس سے قریب پایا۔ میاں صاحب ! آزمائش میں ’’خود احتسابی‘‘ آسان بھی، ضرورت بھی۔ غلطیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ اللہ کی ناراضی کو بھی پھرولنا ہو گا۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔ آج جبکہ آپ سیاست کے محور، اہم ترین مقام پر فائز ،حکومت اور اپوزیشن بقلم خودکنٹرول کر چکے۔
بس بیانیہ کو مضبوط و مربوط بنائیں۔تحریک انصاف اور دیگرسیاسی یتیم ثانوی کہ کٹھ پتلیاں و مہرے بیچارے پیادے ہوں یا گھوڑے، فیل ہوں یاوزیر سارے ناچیز کہ ’’سب سے پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ ــ‘‘،مقابلہ شاطر سے ہے، للکار چکے ہیں۔لعزش نہیں آنی۔
باوجودیکہ ایبٹ آباد کی تاریخ کا بڑا جلسہ،تعداد اہم نہیں، جنون جذبہ، ذوق و شوق، حدت شدت زیادہ اہم بلکہ اہم ترین۔ 14مارچ 1977، قومی اتحاد کی مزاحمتی تحریک کا آغاز نیلا گنبدمسجد لاہور سے ہوا، بنفس نفیس موجود تھا۔ تمام قائدین (نو ستارے) مسجد اندر موجود، بمشکل چند درجن نمازی تھے۔ مسجد باہر بھی تعداد حوصلہ افزانہ تھی، چند سو نفوس مگر جنون اور ولولوں سے بھرپور، جو ش و خروش دیدنی تھا۔ بالآخرجوش و جنون نے بھٹو کی مضبوط حکومت کی چولیں ہلا ڈالیں۔ ماضی بعید برطرف، 13مارچ2007 دلجمعی سے اسلام آباد سپریم کورٹ پہنچا کہ ایک بجے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی متوقع آمدتھی۔ چوہدری صاحب تشریف لائے،چلچلاتی دھوپ میں میڈیا کے نامی گرامی، جناب لیاقت بلوچ، مولانا فضل الرحمٰن اور7/8سوافراد زیادہ تر وکلاء تک محدود استقبالی تھے۔ مگرموجود لوگوں کا جذبہ جوش جنوں پکار پکار، ثبت کر گیا کہ ’’مزاحمتی تحریک جنم لے چکی‘‘۔ آنے والے دنوں میں مشرف اقتدار کے وصال کی اصل وجہ یہی مزاحمتی تحریک ہی تو بنی۔ ایبٹ آبادجلسہ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر گرم جوشی، آب و تاب وطنی طول و عرض میں مسلم لیگی سپورٹرز کو بھی ساتویں آسمان پر پہنچا گیا۔ (ازراہ تفنن) ذاتی خوشی تسلی کہ تقریر کا مرکزی خیال،تھیم اور لب و لباب میرے پچھلے کالم ’’قافلہ کیوں لٹا‘‘ سے ماخوذ تھا، قارئین کرام، مماثلت اتفاقیہ ہی جانیں۔ نواز شریف کیWITCH HUNTING کرنے والوں سے مودبانہ گزارش، ایبٹ آباد سے جنم لینے والی تحریک کو آسان نہیں لینا۔ طفل تسلیاں، توضیحات، تشریحات، ترجیحات، وجوہات، وضاحتوں نے آپ کو ہر صورت گمراہ رکھنا ہے۔ نواز شریف اپنی ننھی جان ہتھیلی پر رکھ چکے، شدید علیل اور بیمار شریک ِ زندگی پس پشت،کمر کس چکے۔ بہر طورنواز شریف کی پاکستان موجودگی نے ارتعاش پیدا کرنا ہے۔ آنے والے دنوں مزاحمتی تحریک بصورت کامیابی، وطن عزیز کو درپیش سیکورٹی خطرات سے نکالنے میں بھی مددگاربن سکتی ہے۔ امریکی وزیر دفاع پاکستان آیا چاہتے ہیں۔ شاید کان بھی کھینچیں۔ دوسری طرف خطے میں علیحدہ سے جنگ وجدل کا ماحول چار سو، گھمسان کا رن پڑنے کو ہے۔پوری دنیا کا80فیصد بری ،بحری، ہوائی طاقتوں کا جمِ غفیر، اسلحہ گولہ بارود کا انبار ہمارے گردو نواح میں اکٹھا ہو چکا۔ ہزاروں ایٹمی ہتھیار ہمارے اردگرد، وطن عزیز کے ٹھنڈ پروگرام نے ہاتھوں کے طوطے اڑا رکھے ہیں۔ کیاتین یا دو مرکزی کردار مل بیٹھیں گے؟ شرع میں کیا شرم، ویسے بھی مصطفیٰ کمال کی بے تکلف پریس کانفرنس نے سب کچھ عیاں کردیا، بے لباس کر گئی، طبیعت مکدر مضمحل رہی۔ ہر تن کو باپوشاک کرنا ہے، جبکہ من کو کدورتوں، نفرتوں، غصہ، ذاتی مفادات سے پاک رہنا ہے۔تبھی جا کر وطنی مستقبل دھندلاہٹ سے باہر آپائے گا۔ تن من لگے گا، تین بڑے یا دو بڑے(ایک نواز شریف)،غصہ تھوکیں، مل بیٹھیں۔ وگرنہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ضروری، بالآخر وطن عزیزکی سٹی گم (اللہ نہ کرے)۔

تازہ ترین