• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہیں گاڑی نہ چھوٹ جائے
لکھنو تہذیب میں پہلے آپ پہلے آپ میں گاڑی چھوٹ جاتی ہے، ہمارے ہاں سیاسی تماشے میں پہلے میں پہلے میں، میں کہیں ساری قوم کی گاڑی نہ چھوٹ جائے، 70برس میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ اس پاک دھرتی پر صرف اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی ہے، بس ہتھیار جدا جدا ہیں، کوئی ووٹ کی حرمت، کوئی مذہب، کوئی عوام کی خدمت، کوئی تبدیلی ہاتھوں میں لئے اقتدار کی جنگ لڑ رہا ہے تو کوئی آئین چھابے میں رکھ کر فروخت کرتا ہے، بنی اسرائیل اس لئے معتوب و مغضوب ٹھہرے تھے کہ وہ آیات سستے داموں بیچتے تھے، الغرض یہ کرسی ہے جسے حاصل کرنے کے لئے مملکت خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی چولیں ڈھیلی کی جا رہی ہیں، جب ایک مذہبی گروہ نے قائداعظم کی مخالفت میں گاندھی کی حمایت کی تھی تو اس نے بھی وطن سے محبت کی آڑ میں اسلامی ملت کے نظریئے کو وطنیت سے جوڑنے کے لئے دین ہی کا سہارا لیا تھا، یہ دین، دنیا، سیاست اور عوام کی خدمت سب باتیں ہیں دام ہمرنگِ زمین ہیں اور 20کروڑ پنچھی دانے دنکے کی امید میں ووٹ کی حرمت کبھی کسی کو تھما دیتے ہیں کبھی کسی کو، اپنے جملہ لیڈرز سے بس اتنی گزارش ہے کہ؎
کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری
سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی
تھوڑی دیر کے لئے یہ سوچئے کہ اگر یہ میڈیا بھی نہ ہوتا تو آج ہمیں لا علمی میں 70برس بیت چکے ہوتے، شاید 70سالہ کرتوتوں سے پردہ اٹھانے کے نتیجے میں کسی ایسے سے بھی پردہ اٹھ جائے جو مسیحا بن کر آئے اور پورا غسل دیدے، ہم نے اپنی مٹی کو بہت ناپاک کر دیا ہے۔ تطہیر کا عمل قریب ہے، عوام کے نام پر چند خواص کی یہ ہولی اب عوام ہی کو روکنا ہو گی، عوام کے لئے اتنا ہی پیغام ہے کہ؎
ان کا نہ کرنا اعتبار کوئی
بھولے سے بھی نہ کرنا اقرار کوئی
٭٭٭٭
روکو کوئی!
کبھی ہم نے یہ بھی سوچا کہ ہمارا سارا صالح ٹیلنٹ بڑی تیزی سے وطن سے جا رہا ہے، ہمارے بہترین دماغ، جاں فشاں افراد، ماہر ہنر مند، اہل علم و دانش جن کی ہمیں ضرورت نہیں انہوں نے ہی ہمارے علاوہ کئی ملکوں کو ترقی یافتہ بنا دیا ہے، ایک مولوی گل محمد ہوا کرتے تھے، وہ اپنی ہر تقریر میں یہ شعر بڑے سُر میں گایا کرتے تھے؎
گل گئے، گلشن گئے، خالی دھتورے رہ گئے
عقلاں والے ٹر گئے تے لنگڑے لُولے رہ گئے
لڑکپن میں سنا ہوا یہ اردوپنجابی شعر سنا تھا، اب اس کو دیکھ رہا ہوں، کئی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا، پاکستانیوں کو کام کرتے دیکھا، شاہکار تراشتے مشاہدہ کیا تو دل ہوا سیپارہ، آج پوری دنیا میں ذات، برادری، چھوٹی چھوٹی قومیتوں، دھڑوں، گروہوں، بیکار کی تنظیموں، مذہب فروشوں، وطن فروشوں، قلم فروشوں، وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں کا کہیں وجود نہ دیکھا، ان تمام اجناس کی منڈی اپنے ہی ملک میں دیکھی، کیا فقہی اصطلاح میں یہ وطن ہم نے دارالحرب نہیں بنا دیا؟ واضح رہے کہ دارالحرب میں اخلاقیات کا وجود نہیں ہوتا، برا نہ منانا اب سچ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس بڑے لوگوں کی قبریں رہ گئی ہیں، جن کی ہم کمائی کھاتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلنے کا کوئی نام نہیں لیتا، ہم نے دین، حسن اخلاق، فن، ہنر، علم، نیکی یہاں تک کہ عشق خدا و رسول ﷺ کو بھی ایککاروبار بنا دیا ہے، پھر وہ بزرگ یاد آیا جو دن کے وقت چراغ لے کے کچھ ڈھونڈ رہا تھا، کسی نے پوچھا بزرگو! کیا تلاش کر رہے ہو؟ جواب دیا؎
کز داد و دَد ملولم انسانم آرزو دست
مکاری عیاری نا اہلی ظلم دھوکہ دہی سے پریشان ہوںانسان ڈھونڈ رہا ہوں سوال کرنے والے نے کہا:نمی یافتہ شود، انسان دستیاب نہیں، اس نے کہا آنکہ نمی یافتہ شود آنم آرزو بست وہ جو دستیاب نہیں وہی میری آرزو ہے۔
٭٭٭٭
اقبال بڑا اپدیشک ہے
اقبال نے اقبال بارے کہا تھا:اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے، ظاہر ہے وہ اپنے تئیں یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ؎
الٰہی سحر ہے پیرانِ خرقہ پوش میں کیا
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں
ہماری دست بستہ نو عمر بالغوں اور عمر رسیدہ نابالغوں سے یہی گزارش ہے، کہ اقبال کی ذات گرامی ہمارے لئے آغوش مادر ہے جیسا کہ رومی نے کہا تھا؎
دستِ ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
ہر نااہل کا ہاتھ تمہیں بیمار کر دے گا، ماں کی طرف آ کہ تیری تیمار داری کرے، آج ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، اقبال سے مصافحہ معانقہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم گل و بلبل کے فرضی قصوں سے باہر نکلیں حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں، قوم بنیں، بھیڑ نہ بنیں، اور اس بھیڑ میں گم نہ ہو جائیں، فارسی نہیں آتی تو اقبال کا اردو کلام اتنا زور دار و رہنما ہے کہ کام کر دے گا، اقوام عالم کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لئے اقبال سے رجوع کرنا ہو گا، اقبال ہمارا قومی نصاب ہے اسے اگر حکومتیں رائج نہیں کرتیں تو جو اقبال شناس ہیں وہ ہی ہمت کریں، خانقاہِ اقبال قائم کریں، اقبال ہی اس دور میں اسلام کا مسلم امہ کا اصل مفہوم اور اس کی ہئیت ترکیبی بتاتے ہیں اور یہ جو آج کے نوجوان گٹار بدست، مست الست ہیں انہیں ہم روکتے نہیں مگر اقبال کا یہ پیغام وہ غور سے پڑھ لیں تاکہ ان کی ترجیحات درست ہوں؎
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر
٭٭٭٭
یہ کسی غریب کی کمر ہے کہ صنم کی؟
....Oکیپٹن صفدر:میرا بس چلے تو دھرنے میں جا کر مظاہرین کے ساتھ بیٹھ جائوں،کیپٹن صفدر عاشق رسول ﷺ ہیں، دھرنے والے کیوں ان کی آرزو پوری نہیں کرتے؟
....Oقومی اسمبلی سے شیریں مزاری کی کرسی چوری، خان صاحب توجہ دیں کرسی چوری اچھا شگون نہیں، بریک تھرو فیل نہ ہو جائے۔
....Oبرطرف سب انسپکٹر ضیاء اللہ:وزیراعظم سے حسن کارکردگی کا ایوارڈ وصول کیا، چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا چالان کیا، نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ کیا اب بھی ہم اپنی پولیس سے حسن کارکردگی کی توقع رکھنے کے حقدار ہیں؟
....Oخورشید شاہ نے دھرنا ختم کرانے کے لئے حکومت کو فوج سے رابطہ کی تجویز، وزیر داخلہ محتاط رہیں، زیادہ گہرے کنویں میں نہ گر جائیں۔
....Oتاجر، دکاندار حضرات ناجائز منافع خوری نہ کریں،غریب عوام کی حالت بہت پتلی اتنی پتلی کہ صنم کی کمر سے بھی نازک۔

تازہ ترین