• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتی حکم کے باوجود دھرنوں سے نمٹنے کی جامع پالیسی مرتب نہ ہوسکی

Todays Print

اسلام آباد(وسیم عباسی) ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرا جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنوں سے نمٹنے کے لئے وفاقی حکومت کو ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کا حکم دیا تھا جس کے تحت وفاقی دارالحکومت کو دھرنوں اور ہڑتالوں سے بچایا جاسکے تاکہ شہریوں کو ایسی سرگرمیوں کی وجہ سے مشکلات اور مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاہم حکومت نے شہریوں کی سہولت میں ایسی کوئی پالیسی مرتب نہیں کی۔ کوئی فیصلہ سازی نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باشندے گزشتہ دو ہفتوں سے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کی جانب سے دھرنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ احتجاجی دھرنا دینے والوں کا تعلق تحریک ختم نبوت، تحریک لبیک یارسول اللہ اور سنی تحریک سے ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ الیکشن ایکٹ2017میں ختم نبوت کے حلف نامے میں ترمیم میں ہاتھ ہونے پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو برطرف اور ترمیم کی پشت پر عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

گزشتہ سال31اکتوبر کو اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے فیصلے میں وفاقی حکومت کو ایک جامع پالیسی مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی تاکہ جڑواں شہروں کے باشندوں کو دھرنوں اور احتجاج کے سبب پیش آنے والی مشکلات اور مصائب سے بچایا جاسکے۔ قومی سلامتی کے ساتھ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔ تمام احتجاجی سرگرمیوں کو’’جمہوریت پارک اور گوشہ خطاب‘‘ تک محدود کردیا جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ احتجاج کا حق بھی قانونی حدود و قیود کا پابند ہے۔ جس پر عمل درآمد کے لئے کسی امتیاز، خوف یا جانبداری نہ برتی جائے۔عوامی جان و مال کے تحفظ کے لئے اقدامات ضلعی انتظامیہ کی صوابدید ہے۔ تاہم حکومت عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی۔ اس سلسلے میں موقف جاننے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر مملکت طلال چوہدری سے کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہوسکا۔

تازہ ترین