• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ایک ایسی دستاویز پر دستخط کئے گئے جس کے روبہ عمل لائے جانے سے پاکستان میں انتخابی عمل کی مضبوطی اور ساکھ کی بہتری میں مدد کی امیدیں وابستہ ہیں۔ حکومت جاپان اور یونائیٹڈنیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے درمیان ہونے والے مذکورہ معاہدے کے تحت جاپان تین سال کے دوران 5.9ملین ڈالر (61کروڑ روپے سے زائد) یو این ڈی پی کو دے گا۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ پانچ لاکھ انتخابی اہلکاروں کو تربیت دی جائیگی، ووٹرز کی آگاہی کے حوالے سے کام کیا جائے گااور انتخابی نتائج وصول کرنے کے نظام میں بہتری لائی جائیگی۔ دستاویز پر جاپانی سفیر اور یو این ڈی پی کے کنٹری ڈائریکٹر نے دستخط کئے۔ تقریب میں موجود چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان سردار رضا خان نے درست طور پر نشاندہی کی کہ جاپانی حکومت، یو این ڈی پی اور دیگر ادارے وطن عزیز میں انتخابی عمل کو زیادہ شفاف بنانے کیلئے جو تعاون کر رہے ہیں اس سے انتخابات زیادہ معتبر ہوسکیں گے۔ وطن عزیز میں اگرچہ مختلف سطحوں پر انتخابات کے کئی دور ہوچکے ہیں مگر ان کی شفافیت بیشتر مواقع پر موضوع بحث رہی ہے۔ انتخابی عمل کی ساکھ عموماً دو طریقوں سے متاثر ہوتی ہے ان میں سے ایک تو دھونس اور دھاندلی کی وہ روش ہے جس میں بیلٹ پیپرز میں تبدیلی سے لیکر ووٹوں کی خریداری، ہڑبونگ، اغواء کے واقعات، بوگس پولنگ اسٹیشنوں کے قیام، فوت شدہ افراد کا بطور ووٹر اندراج جیسے ہتھکنڈے بھی شامل ہیں۔ انتخابی عمل کی ساکھ پر منفی اثر ڈالنے کا ایک سبب اخلاق، کردار، تعلیمی لیاقت، قیادت کی اہلیت اور تدبر و بصیرت کی خوبیوں سے عاری افراد کا انتخابات میں حصہ لینا بتایا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس جائز یا ناجائز طریقے سے حاصل کردہ دولت کے وہ انبار ہیں جن کا مقابلہ حبیب جالب جیسے مقبول ،مرزا ابراہیم جیسے مزدور لیڈر اور عبدالستار ایدھی جیسے خدمت کا ریکارڈ رکھنے والے افراد نہیں کرسکتے۔ لائق اور باصلاحیت افراد ایسے لوگوں کی دولت کے مقابلے میں خود کو بے بس پاکر اول تو انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتے اور اگرحصہ لیتے ہیں تو ان کیلئے محض صلاحیتوں کے بل پر الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہوتا۔ دانشور حلقے عشروں سے ان پہلوئوں پر توجہ دلاتے رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا اعتراض ہی یہ ہے کہ 98یا 99فیصد آبادی پر مشتمل پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی آبادی کے ایک یا دو فیصد حصے پر مشتمل اس طبقے کے افراد کیونکر کرسکتے ہیں جو ان کے استحصال کا ذمہ دار ہے۔ صاحبان دانش کی طرف سے مختلف اوقات میں مفید تجاویز بھی سامنے آتی رہی ہیں مثلاً ایسی متناسب نمائندگی کی تجویز جس کے تحت آمدن اور وسائل کی بنیاد پر عوام کے گروپ بناکر انہیں اپنے حقیقی نمائندوں کے انتخاب کا حق دیا جائے۔ اس نوع کی کئی آراء پر شاید پیچیدگیوں کے باعث توجہ نہیں دی جاسکی مگر انتخابات میں شفافیت لانے کے حوالے سے مختلف ادوار میں کام بہرحال آگے بڑھا ہے۔ نگراں حکومتوں کے قیام سمیت کئی اقدامات کا اثر ماضی کی نسبت زیادہ شفافیت کے اعتراف کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کچھ عرصے سے وطن عزیز میں یہ روش نظر آرہی ہے کہ جب انتخابات کا وقت قریب آنے لگتا ہے تو ووٹر لسٹوں، حلقہ بندیوں اور دوسری بہت سی ایسی چیزوں پر کام شروع کیا جاتا ہے جن پر تمام امور ہر وقت اپ ڈیٹ ہونے چاہئیں۔ پڑوسی ملک بھارت سمیت تمام جمہوریتوں میں مردم شماری سے لیکر انتخابی فہرستوں کی تیاری تک ہر چیز اپ ڈیٹ رہتی ہے اور جب بھی انتخابی میدان سجانے کا فیصلہ ہو، مقررہ وقت میں اس کے انعقاد میں دشواری نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ’’نادرا‘‘ کے پاس مختلف تفصیلات کے ساتھ اعداد و شمار کا اچھا سسٹم موجود ہے، الیکشن کمیشن کو اس کے تعاون سے انتخابی فہرستوں کا ایسا نظام وضع کرنے پر توجہ دینی چاہئے جسکے تحت ایک بٹن دبانے سے تمام انتخابی فہرستیں سامنے لانا ممکن ہو۔ بدھ کے روز جس معاہدے پر دستخط ہوئے اسکے تحت اقوام متحدہ کے ادارے اور جاپانی حکومت کے تعاون سے رزلٹ مینجمنٹ اور خواتین ووٹروں کے رجسٹریشن سمیت کئی اقدامات کے ذریعے انتخابی ساکھ زیادہ معتبر بنانے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین