• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ انسانی جسم کے اعضا میں سے صرف زبان ہی نہیں بولتی بلکہ جسم کا ہر حصہ بولتا ہے۔ جسم کے ہر حصے کی اپنی زبان اور اپنا اظہار ہوتا ہے جو واضح پیغام دیتا ہے۔ اللہ پاک نے بولنے، گفتگو کرنےاور آپس میں رابطہ قائم رکھنے کے لئے انسان کو زبان عطا کی ہے۔ دیکھنے کو آنکھیں، چلنے کے لئے ٹانگیں، کام کرنے کے لئے ہاتھ اور بازو دیئے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو راز کھلے گا کہ جسم کے ہر حصے کی اپنی زبان ہوتی ہے جو واضح پیغام دیتی اور اپنی کیفیت کا اظہار کرتی ہے۔ اکثر اوقات جب زبان خاموش ہوتی ہے تو جسم کے دوسر ےاعضا بول رہے ہوتے ہیں۔ غصے، ناراضی، احتجاج، ایمرجنسی، پریشانی، بھوک، غرور وغیرہ وغیرہ کا اظہار صرف زبان سے ہی نہیں ہوتا بلکہ دوسرے اعضا بھی اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ چونکہ وہ بولتے نہیں اس لئے ہم ان کا پیغام سمجھتے نہیں البتہ اگر تھوڑا سا غور کریں تو ان کا اظہار آسانی سے سنائی دیتا ہے۔ تیزی سے اٹھتے ہوئے قدم، آنکھوں سے ٹپکتی بے بسی، ہوا میں لہراتے ہوئے ہاتھ، نگاہوں سے ٹپکتے ہوئے شعلے، شان بے نیازی سے ملایا گیا نصف ہاتھ، نرم و گرم مصافحہ اور زور سے گلے ملنا، آنکھوں کا رابطہ ہوتے ہی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کا ابھرنا اور فوراً غائب ہو جانا، دور سے کسی ہمدم کو دیکھتے ہی بانہوں کا پھیل جانااور دانتوں کا چمک اٹھنا، پیشانی پر پھیلتی ہوئی شکنیں اور چہرے کا سکڑ جانا وغیرہ وغیرہ یہ سب اظہاریے ہیں۔ ان تمام حرکتوں اور ادائوں کی اپنی زبان ہے جو سنائی نہیں دیتی لیکن واضح پیغام دے جاتی ہے شرط تھوڑا سا غور اور مشاہدے کی عادت کی پرورش ہے۔
یہ غالباً 65-1964کی بات ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی کانووکیشن بھی تھی اور شاید صد سالہ تقریبات بھی..... اس زمانے کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان، کانووکیشن میں چیف گیسٹ تھے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کے گورنر نواب امیر محمد خان بھی تشریف فرما تھے۔ بلاشبہ ایوب خان ایک وجیہہ، رعب دار اور باوقار شخصیت کے ملک تھے اور نواب امیر محمد خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں اور تیز متلاشی آنکھوں کے ساتھ ایک خوفناک شخص لگتے تھے۔ متلاشی آنکھیں میں ایسی آنکھوں کو کہتا ہوں جو ہمہ وقت حرکت میں رہیں، الرٹ رہیں اور کسی چیز کی تلاش میں رہیں۔ میں نے ابھی گورنمنٹ کالج لاہور سے تازہ تازہ ایم اے کیا تھا اور مجھے اس کانووکیشن میں کالج کا ایک بڑا اعزاز رول آف آنر اور میرٹ سرٹیفکیٹ ملنا تھا۔ رول آف آنر حاصل کرنے والے طلبہ کو الگ قطارمیں بٹھایا گیا تھا۔ جب میرا نام پکارا گیا تو میں تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا اسٹیج پر پہنچ گیا۔ تیز رفتاری، تیز چلنا میری عادت تھی جس پر میرا بس نہیں چلتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میٹرک کے امتحان میں، میں نے کلاس میں اول پوزیشن لی تو میرے نہایت قابل، تجربہ کار اور فاضل ہیڈماسٹر چوہدری عبدالمالک مرحوم و مغفور نے میری سالانہ رپورٹ میں یہ فقرہ لکھا ’’ صفدر محمود تیزرفتار اور جلد باز ہے۔ جلد بازی پہ قابو پالے تو چشم ما روشن‘‘ الحمد للہ میں نے محنت کرکے جلدبازی پر قابو پا لیا لیکن اس جہاد میں دو دہائیاں گزر گئیں۔ ذکر ہورہا تھا کانوووکیشن اور صدر ایوب خان کا..... صدر صاحب نے رول آف آنر تھماتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا تو مجھے یوں لگا جیسے میرا ہاتھ کسی شکنجے میں کسا گیا ہے۔ فوراً دل نے کہا اس شخص کی حکومت پر گرفت مضبوط رہے گی۔ صدارتی خطبے میں ایوب خان نے کہا کہ سویز کے اس طرف گورنمنٹ کالج لاہور سب سے بہترین تعلیمی ادارہ ہے، بلاشبہ ایسا ہی تھا۔ بعد ازاں کئی برس بعد گورنر نواب امیر محمد خان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ انہوں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے اعتماد اور ’’غرور‘‘ سے یوں ہاتھ بڑھایا کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ساتھ کوئی واردات ہوگئی ہے۔ ہاتھ کی اپنی زبان ہوتی ہے جو اکثر زبان سے بھی زیادہ موثر اور صاف پیغام دیتی ہے۔ میاں نواز شریف بامروت اور نرم خو انسان ہیں۔ انہیں پہلی بار پنجاب کا وزیراعلیٰ بنے چند ماہ ہی گزرے تھے کہ مجھے اسلام آباد سے ٹرانسفر کرکے پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات و ثقافت لگا دیا گیا۔ میں جب ان سے پہلی بار ملنے گیا تو وہ ہاتھوں کو ملتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ شاید ہاتھوں کو ہینڈ لوشن لگا رہے تھے۔ مجھ سے محبت سے ملے اور ہاتھ ملایا تو ہاتھ پھسل گیا۔ دل نے کہا کہ ان کے ہاتھوں سے اقتدار ہمیشہ پھسلتا رہے گا۔ آرزو نے کہا اے کاش! ایسا نہ ہو۔ پھر میں نے اپنی بے بس نگاہوں سے دیکھا کہ وہ تین بار وزیراعظم بنے اور ہر بار اقتدار ان کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ صدر ضیاء الحق سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ہمیشہ دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ لے کر مسکراتے تو مجھے ہر بار محسوس ہوتا کہ یہ مخمل میں لپٹا ہوا ڈنڈا ہے۔ جنرل وحید کاکڑ آرمی چیف تھے۔ ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے کرسی سے اٹھ کر اور دو قدم آگے بڑھ کر یوں ہاتھ ملایا کہ دل نے کہا ’’یہ بڑا محتاط اور بڑے فیصلے کرنے والا شخص ہے‘‘ٔ جنرل پرویز مشرف نے ازراہ ِکرم ایک ہاتھ آگے بڑھا کر مصافحہ کیا تو محسوس ہوا کہ یہ ایک کھلنڈرے، درمیانے فہم اور مہم جو انسان کا سانولا ہاتھ ہے۔ ایک بار لیڈی ڈیانا سے ہاتھ ملایا، وہ ایک یاد بن کر رہ گیا۔ امریکہ کے صدر جمی کارٹر سے دو تین بار ہاتھ ملانے کا موقع ملا تو ہر بار محسوس ہوا کہ مونگ پھلی کا بادشاہ جمی کارٹر کوئی نہایت لائق فائق انسان نہیں ۔ اس کی کامیابی کا راز امریکہ کے قومی اداروں کی مضبوطی میں پنہاں ہے۔ مراکش کے مرحوم بادشاہ حسن اور یو اے ای کے حکمران زید بن النہیان سے ہاتھ ملائے تو محسوس ہوا کہ یہ ’’بادشاہ قسم‘‘ کے بادشاہوں کے ہاتھ ہیں۔ غرض کہ بہت سے ممالک کے حکمرانوں سے ہاتھ ملانے کا موقع ملا تو تجربہ ہوا کہ ہر ہاتھ کا اپنا لمس، اپنا انداز اور اپنی زبان ہوتی ہے جو چپکے سے پیغام دے جاتی ہے اور ذہن میں ایک تصویر بنا جاتی ہے۔ خوش آمدید کہنے والے ہاتھوں کا انداز اور زبان مختلف ہوتی ہے اور الوداع کہنے والےہاتھوں کی زبان اس کے برعکس..... میں نے آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ہوائی اڈے پر ایک نوجوان کو الوداع ہوتے دیکھا جس کا سارا خاندان ہاتھ لہراتے ہوئے رو رہا تھا، پتا چلا نوجوان جنگی محاذ پر جارہا تھا۔ کوریا کے دارالحکومت سیو ٔل میں ایک شخص کو ہوا میں مکے لہراتے اور گھاس کو مکے مارتے دیکھا تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ شخص گھر جاتے ہی بیوی کو ’’دوچار چپت‘‘ رسید کرے گا۔ مدبر سیاستدان تقریر کرتا ہے تو وہ صرف کسی نکتے کی وضاحت کے لئے ہاتھ اٹھاتا اور انگلی کو حرکت دیتا ہے۔ جذباتی اور غصیلے سیاستدان تقریر کرتے ہیں تو ہوا کو مکے مارتے ہیں۔ کچھ ایسے صحافی دوستوں سے بھی پالا پڑتا ہے جن سے ہاتھ ملانے کے بعد انگلیاں گننا پڑتی ہیں۔ مطلب یہ کہ انسانی جسم کے ہر عضو کی اپنی اپنی زبان ہوتی ہے جو واضح پیغام دیتی ہے۔ اللہ پاک نے گفتگو کرنے کے لئے زبان عطا کی ہے لیکن ہر عضو کو بھی اپنی اپنی زبان عطا کی ہے۔ انسانی زبان جھوٹ بول سکتی ہے لیکن انسانی اعضا یعنی ہاتھ، پائوں اور آنکھ کی زبان کبھی جھوٹ نہیں بولتی بلکہ کبھی کبھی وہ زبان کے جھوٹ کو بھی بے نقاب کردیتی ہے۔

تازہ ترین